انسدادِ دہشت گردی کی عدالت ہفتہ 20 مارچ کو موٹر وے گینگ ریپ کیس کا فیصلہ سنائے گی۔
عدالت کے جج ارشد حسین بھٹہ نے گزشتہ سماعت کے دوران فریقین کے دلائل مکمل ہونے کے بعد فیصلہ محفوظ کر لیا تھا۔
ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل حافظ اصغر اور وقار بھٹی نے استغاثہ کی نمائندگی کی جبکہ ایڈووکیٹ شیر گل قریشی اور قاسم آرائیں ملزمان عابد ملہی اور شفقت علی کے لیے وکیل صفائی تھے۔
استغاثہ کا کہنا تھا کہ ملزمان نے گن پوائنٹ پر خاتون کو ریپ کا نشانہ بنایا اور ان کے خلاف ٹھوس شواہد موجود ہیں۔ جائے وقوعہ سے حاصل کردہ نمونوں سے ملزمان کے ڈی این اے بھی میچ ہو گئے ہیں جبکہ مجسٹریٹ کی موجودگی میں خاتون نے بھی انہیں شناخت پریڈ میں پہچان لیا ہے۔ ملزم شفقت علی نے جوڈیشل مجسٹریٹ کے روبرو اپنے جرم کا اعتراف بھی کیا ہے۔ انہوں نے عدالت سے مطالبہ کیا کہ ان کو اس گھناؤنے جرم پر سخت سے سخت سزا ملنی چاہیے۔
البتہ وکیل صفائی کا کہنا ہے کہ استغاثہ جائے وقوعہ پر شفقت علی کی موجودگی ثابت نہیں کر پایا اور شناخت پریڈ بھی گرفتاری کے 22 دن بعد ہوئی تھی۔ شفقت کا بیان بھی ایک مہینہ 18 دن بعد لیا گیا جبکہ وکیل صفائی کا دعویٰ ہے کہ ملزم کو یہ بیان دینے پر مجبور کیا گیا۔ انہوں نے شناخت پریڈ کی حیثیت پر بھی سوال اٹھایا۔
استغاثہ نے مقدمے میں کُل 37 گواہان پیش کیے کہ جن میں خود خاتون بھی شامل تھیں۔ تمام دلائل مکمل ہونے کے بعد عدالت نے فیصلہ 20 مارچ تک ملتوی کیا تھا۔
یہ واقعہ 9 ستمبر 2020ء کو لاہور کے علاقے گجرپورہ کے قریب پیش آیا تھا جب عابد ملہی اور شفقت علی نے مبینہ طور پر ایک خاتون کو گن پوائنٹ پر اس کے دو بچے کے سامنے ریپ کا نشانہ بنایا تھا۔ خاتون لاہور-سیالکوٹ موٹر وے (ایم-11) پر کسی کی مدد کا انتظار کر رہی تھیں کیونکہ ان کی گاڑی کا فیول ختم ہو گیا تھا۔ اس دوران ملزمان نے خاتون سے ایک لاکھ روپے نقدی، زیورات اور اے ٹی ایم کارڈز بھی چھینے اور موقع سے فرار ہو گئے۔
اس واقعے کے خلاف ملک بھر میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی تھی اور بڑے پیمانے پر مظاہرے ہوئے تھے۔ یہاں تک کہ حکومت نے ریپ کے خلاف قوانین میں تبدیلی کی اور ریپ کرنے والوں کو کیمیائی طور پر نامرد بنانے کا قانون منظور کیا۔ اینٹی-ریپ آرڈیننس میں ریپ کے مقدمات میں فوری فیصلے اور گواہوں کو تحفظ دینے کے قوانین بھی شامل کیے گئے۔
جواب دیں