شام میں خانہ جنگی کے 10 سال، خواتین پر اثرات بدترین

اِس ہفتے شام میں خانہ جنگی کے آغاز کو 10 سال مکمل ہو رہے ہیں، ایک ایسا تنازع جو ایک دہائی کے دوران ملک کی تقریباً نصف آبادی کو بے گھر کر چکا ہے، تقریباً ایک کروڑ 20 لاکھ افراد ملک کے اندر بے دخل ہوئے ہیں یا مہاجرین کی حیثیت سے دوسرے ملکوں میں رہنے پر مجبور ہیں۔

مستقل اندیشے اور خطرات کے ساتھ ساتھ شامیوں کو کووِڈ-19 کی وبا کا بھی سامنا ہے اور بدترین معاشی حالات کا بھی، جو سب مل کر خطے کی خواتین پر بدترین اثرات مرتب کر رہے ہیں۔

متاثرین میں 17 سالہ سمیعہ (فرضی نام) بھی شامل ہیں۔ ڈیڑھ سال پہلے جب ان کی عمر 17 سال تھی تو انہوں نے اپنے شہر قامشلی سے ہجرت اور زندگی میں پیش آنے والے واقعات کے بارے میں بتایا تھا۔ وہ کم عمری میں ہی شادی سے بچیں، جنسی حملے کی کوشش کا سامنا کیا اور بار بار اپنے ہی گھر والوں کے ہاتھوں تشدد سہا، یہاں تک کہ اپنے بھائی کے ہاتھوں مار بھی کھائی۔

یہ تشدد اور پے در پے صدمے شام کی خواتین اور لڑکیوں کے لیے اب عام ہیں، چاہے وہ اپنے ملک میں ہی ہوں یا کسی دوسرے ملک کے مہاجر کیمپوں میں۔ مشرقی غوطہ سے تعلق رکھنے والی نوعمر لڑکی لامیہ کہتی ہیں کہ تشدد ہر جگہ ہے اور بد سے بدترین صورت اختیار کر رہا ہے۔

‏UNFPA کا ڈیٹا ظاہر کرتا ہے کہ گزشتہ چند سالوں میں صنفی تشدد کا خطرہ کہیں بڑھ گیا ہے اور اندیشہ ہے کہ کہیں یہ معمول کی بات نہ بن جائے۔

گزشتہ دہائی میں عدم تحفظ، خوف اور سخت معاشی دباؤ نے خواتین اور لڑکیوں کی حالت کہیں زیادہ کمزور کر دی ہے اور کم عمری کی شادی جیسے اقدامات عام ہو گئے ہیں۔

حلب سے تعلق رکھنے والی 16 سالہ مریم کہتی ہیں کہ اس عمر میں زندگی ان کے لیے ایک کھلی جیل بن چکی ہے۔ "اچانک ہمیں پتہ چلا کہ اب گھر نہیں چھوڑنا کیونکہ کوئی ہراساں کر سکتا ہے، ریپ کر سکتا ہے یا اغوا کر سکتا ہے۔ مجھے بتایا گیا کہ اب تحفظ کے لیے واحد راستہ شادی کرنا ہے، لیکن میں شادی نہیں کرنا چاہتی۔ میں اس کے لیے تیار نہیں ہوں۔”

اسکول اور صحت کی سہولیات تک رسائی، جو کبھی معمول کی بات تھی، اب ان کی کوئی ضمانت نہیں ہے۔ خطے میں مدد کی طالب خواتین میں سے تقریباً 5 لاکھ خواتین حاملہ ہیں، جنہیں جنسی و تولیدی صحت تک رسائی درکار ہے۔

کووِڈ-19 نے اِن چیلنجز کو مزید گمبھیر کر دیا ہے، مثلاً نقل و حرکت پر پابندی اور لاک ڈاؤن کی وجہ سے خود پر ظلم کرنے والے شوہر کے ساتھ گھر پر قید رہنے پر مجبور ہونا، اس پر بڑھتا ہوا معاشی دباؤ بھی تناؤ میں اضافہ کر رہا ہے۔

لیکن تمام تر کوششوں کے باوجود خطے کے عوام بالخصوص خواتین کو مزید مدد کی ضرورت ہے تاکہ خراب ہوتی ہوئی معاشی صورت حال اور وبا سمیت دیگر چیلنجز سے نمٹا جا سکے۔

اس بحرانی حالت میں بھی عوام نے امید کا دامن نہیں چھوڑا۔ نوجوان چیلنجز سے بھرپور زندگی میں بھی فن سے وابستگی اختیار کر رہے ہیں اور ابھرتی ہوئی آواز بن رہے ہیں۔ شمال مغربی شام میں 12 سالہ بنا کہتی ہیں کہ سب لڑکیوں کی طرح میرا بچپن بھی بہت بُرا گزر رہا ہے۔ لیکن ہم سب ایک بہتر مستقبل کا خواب دیکھتے ہیں۔ "میں پڑھنا چاہتی ہوں، ایک بہتر مستقبل کے لیے۔ مجھے امید ہے کہ اس جنگ کا خاتمہ ہوگا تاکہ میں اپنے خاندان کے ساتھ بحفاظت اپنے گھر واپس جاؤں۔ مجھے یقین ہے کہ ہر لڑکی کا یہی خواب ہوگا۔”

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے