یہ 21 دسمبر کی رات 9 بجے کا وقت تھا جب جنوبی وزیرستان کے ایک چھوٹے سے گاؤں کے مکین بادشاہ گُل کو اپنے گھر کے باہر گولیاں چلنے کی آواز آئی۔ وہ سمجھے کہ شاید کسی کا قتل ہو گیا ہے کہ اچانک انہیں ایک شخص کی بلند آواز سنائی دی "میں اس گھر کی لڑکی سے شادی کرنا چاہتا ہوں اور جو ایسا کرنے کی کوشش کرے گا، اسے قتل کر دوں گا۔”
یہ اعلان جس شخص نے کیا، اس کا نام عمر خان تھا، جو بادشاہ گُل کی 15 سالہ بیٹی سے شادی کرنا چاہتا تھا۔
بادشاہ گُل نے گاؤں اعظم ورسک کے تھانے میں پرچہ کٹوایا کہ اس کی بچی کی منگنی پہلے سے ہو چکی ہے، لیکن عمر خان اس کے منگیتر کے ساتھ ذاتی عناد رکھتا ہے، اس لیے بدلہ لینے کے لیے "گھاگ” کا اعلان کیا ہے۔
پاکستان کے ان سابق قبائلی علاقوں میں لڑکی اور اس کے خاندان کی رضامندی کے بغیر اس سے شادی کے اعلان کی روایت کو "گھاگ” کہا جاتا ہے۔ اس صدیوں پرانی روایت کے مطابق اس کھلے اعلان کا مطلب ہے کہ عورت اب اُس بندے کی منگیتر ہے جو سرِ عام اعلان کر رہا ہے اور کوئی بھی اس سے دشمنی کا خطرہ مول لیے بغیر اس سے شادی کی خواہش ظاہر نہیں کر سکتا۔
جنوبی وزیرستان کے ضلعی پولیس افسر شوکت علی کہتے ہیں کہ گزشتہ سال کے دوران ایسے چار واقعات سامنے آ چکے ہیں اور ملزمان کو گرفتار کیا گیا ہے۔ دو مقدمات میں تو ملزمان نے گرفتاری کے بعد اپنے گھاگ کے دعوے واپس لیے اور یقین دہانی کروائی کہ وہ دوبارہ ایسا نہیں کریں گے۔
خیبر پختونخوا اسمبلی نے 8 جنوری 2013ء کو اتفاق رائے کے ساتھ گھاگ کی روایت کے خاتمے کا قانون منظور کیا تھا۔ اسے اُس وقت کی سماجی بہبود و بااختیار خواتین کی صوبائی وزیر ستارہ ایاز نے پیش کیا تھا۔ قانون کے مطابق گھاگ کی روایت پر عمل کرنے والے شخص کو کم از کم تین سال قید، جو بڑھا کر 7 سال بھی کی جا سکتی ہے، اور 5 لاکھ روپے جرمانے کی سزا ہوگی۔
اس کے باوجود خیبر پختونخوا کے چند قبائلی اضلاع میں آج بھی گھاگ کی روایت موجود ہے۔ ستارہ ایاز کہتی ہیں کہ اب بھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔ قانون وضع کرنا تو محض پہلا قدم تھا لیکن اسے قبائلی اضلاع میں سختی سے نافذ کرنا ایک بڑا چیلنج ہے۔ قانون نے بلاشبہ کئی لوگوں کو پولیس کے پاس آنے اور ملزمان کے خلاف پرچہ کٹوانے کا حوصلہ دیا ہے لیکن اب بھی بہت سے لوگ ایسے ہیں جنہیں اپنے قانونی حق کا شعور نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ حکومت کو اس حوالے سے پشتون خواتین میں شعور اجاگر کرنے کے لیے ابھی بہت کچھ کرنا ہے۔
پشاور میں خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی ایک کارکن درِ شہوار کہتی ہیں کہ گھاگ کا آغاز جنوبی وزیرستان سے ہوا تھا اور پھر یہ آہستہ آہستہ خیبر پختونخوا کے دیگر قبائلی اضلاع تک بھی پھیل گیا۔ "حیران کُن طور پر لڑکی، اس کے والدین اور خاندان کی اس معاملے میں کوئی مرضی نہیں ہوتی۔ ایسے واقعات بھی پیش آئے ہیں کہ جن میں گھاگ کو محض بدلہ لینے کے لیے استعمال کیا گیا۔ وہ شخص کبھی اس لڑکی سے شادی نہیں کرتا اور وہ تاعمر کنواری رہتی ہے۔
ایڈووکیٹ جاوید علی اصغر کہتے ہیں کہ اس معاملے میں قانون بالکل واضح ہے کہ عدالت کسی کو بھی گھاگ کی اجازت نہیں دیتی، قبائلی اضلاع میں رہنے والوں کو بھی نہیں۔ جاوید اصغر نے 2017ء میں امینہ جان کا مقدمہ لڑا تھا جنہوں نے پشاور ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی تھی کہ ایک شخص نے ان پر گھاگ کا اعلان کر رکھا ہے۔
جاوید اصغر نے بتایا کہ ایک شخص نے اپنے بیٹے کے لیے امینہ کا ہاتھ مانگا تھا، جبکہ اُس کی عمر صرف 2 سال تھی۔ امینہ کے والدین نے انکار کر دیا۔ وہ شخص 2005ء میں پھر آیا جب لڑکے کی عمر 14 سال تھی لیکن والدین نے پھر انکار کیا۔ تب اُس شخص نے لڑکی پر گھاگ کا اعلان کر دیا اور کہا کہ یہ اس کے بیٹے کی بیوی ہے اور کوئی اس سے شادی نہیں کر سکتا۔ اس لڑکے نے 2007ء میں کسی دوسری عورت سے شادی کر لی اور اس کے چار بچے بھی ہو گئے لیکن امینہ سے کوئی شادی نہیں کر سکتا تھا۔ یوں 26 سال کی عمر میں بھی وہ کنواری تھی۔ 2017ء میں عدالت کے حکم پر اسے اپنی پسند کی شادی کا اختیار ملا۔
در شہوار کے مطابق گھاگ عورت کے لیے ایک عذاب ہے۔ وہ پوری عمر کے لیے کسی ایسے شخص سے منسوب ہو جاتی ہے، جس کے بارے میں اس سے رائے تک نہیں لی جاتی۔ انہوں نے کہا کہ قبائلی علاقوں میں فوجی آپریشنز کے بعد حالات بہتری کی جانب جا رہے ہیں۔ بہت سے لوگ ان علاقوں سے شہروں میں منتقل ہو گئے ہیں۔ اس ہجرت نے انہیں قبائلی علاقوں سے باہر کی دنیا سے رابطے کے بھی قابل بنایا۔ نہ صرف خواتین بلکہ مردوں کو بھی اپنے قانونی حقوق کے بارے میں پتہ چلا اور یہی وجہ ہے کہ گھاگ کا استعمال کم ہوا ہے۔
جواب دیں