صومالیہ میں خواتین کی نظریں انتخابات اور پارلیمنٹ پر

امینہ محمد عابدی صومالیہ کی حکومت کی سخت ترین ناقدین میں سے ایک ہیں، 24 سال کی تھیں جب 2012ء میں پہلی بار انتخابات میں کھڑی ہوئیں، جیتیں اور اب 32 سال کی عمر میں تیسری بار انتخابات میں حصہ لے رہی ہیں، جو 8 فروری کو ہوں گے۔

لیکن صومالیہ جیسے ملک میں یہ سب اتنا آسان نہیں ہے، جہاں سیاست پر مردوں کا غلبہ ہے۔ پارلیمنٹ میں کون جائے گا، اس کا فیصلہ عموماً قدامت پسند قبائلی بزرگ کرتے ہیں اور بہت کم لوگ ایسے ہیں جو سمجھتے ہیں کہ عورتوں کو سیاست میں آنا چاہیے۔

امینہ بتاتی ہیں کہ مجھے کہا گیا کہ تم نے طوائف بننا ہے کیا؟ عورت کیسے قبیلے کی نمائندگی کر سکتی ہے؟ میرا جواب یہی ہوتا کہ قبیلہ صرف مردوں پر مشتمل نہیں ہوتا۔

اس مرتبہ اپنی نشست پر امینہ کا مقابلہ پانچ مردوں سے ہے، جو ایوانِ زیریں اور ایوانِ بالا کی 329 نشستوں میں سے ایک ہے۔ ان دونوں ایوانوں میں موجود عورتوں کی تعداد 24 فیصد ہے۔

چند ہفتے پہلے صومالیہ کے وزیر اعظم محمد حسین روبل نے اعلان کیا تھا کہ ایک تہائی پارلیمانی نشستیں خواتین کے لیے مختص کی جائیں گی۔

خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والے اس کا مطالبہ بہت عرصے سے کر رہے تھے۔ جولائی 2020ء میں ایوانِ زیریں نے ایک بل کی بھی منظوری دی، لیکن ابھی یہ ایوانِ بالا سے منظور نہیں ہو سکا اور اس کے بعد بھی قانون کا حصہ بننے کے لیے اس پر صدر کے دستخط ہوں گے۔

لیکن ‘ہیئر ویمن فاؤنڈیشن’ کی سربراہ دقا عبدی قاسم صلاد وزیر اعظم کے اس اعلان سے متاثر نہیں دکھائی دیتیں۔ کہتی ہیں "یہ ہماری غلطی تھی کہ ہم نے آئین میں 30 فیصد کوٹہ مقرر کرنے کے لیے دباؤ نہیں ڈالا۔ اگر ڈالتے تو کم از کم کوٹہ پالیسی کا حصہ بن جاتا۔ پالیسیاں آسانی سے نہیں توڑی جا سکتیں۔ اس وقت اس کی حیثیت محض سفارشات کی سی ہے۔”

انہوں نے مزید کہا کہ مجھے تشویش ہے کہ خواتین پچھلی مرتبہ سے زیادہ نشستیں حاصل نہیں کر پائیں گی۔ ہم اس وقت 24 فیصد نشستیں رکھتے ہیں، لیکن میرے خیال میں اس مرتبہ ان کی تعداد کم ہو جائے گی۔

لیکن سابق نائب وزیر اعظم اور وزیر امور خارجہ فوزیہ یوسف حاجی آدم کا کہنا ہے کہ انتخابی کوٹے کا بنیادی ہدف انتخابی فہرستوں میں موجود صنفی عدم مساوات کو کم کرنا ہے۔ خواتین اراکین پارلیمنٹ کے لیے حقوقِ نسواں کے تحفظ کی خاطر کوٹہ بہت ضروری ہے، بلکہ یہ پارلیمنٹ میں آبادی کی نمائندگی بھی کرتا ہے۔

ملک کی پہلی نائب وزیر اعظم اور وزیر خارجہ کی حیثیت سے، اور اب نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی کی رہنما کے طور پر، فوزیہ آدم صومالیہ کی سیاست میں خواتین کے لیے موجود رکاوٹوں سے بخوبی آگاہ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ خواتین کو درپیش چیلنجز میں لامحدود کشیدگی اور امن و استحکام کے مفقود ہونے کے علاوہ الشباب کے دہشت گرد بھی ہیں، جو ترقی اور جمہوری عمل پر حملے کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ سیاست میں آنے کی خواہش رکھنے والی خواتین کا مالی طور پر کمزور ہونا بھی ایک بڑا چیلنج ہے۔

آئندہ انتخابات میں حصہ لینے کے خواہشمند کسی بھی امیدوار کو 10 سے 20 ہزار ڈالرز کی رجسٹریشن فیس ادا کرنا پڑے گی۔ عورتوں کے لیے اتنی بڑی رقم حاصل کرنا مردوں سے کہیں زیادہ مشکل ہے، مردوں کو کاروباری اداروں اور اپنے قبیلے کی جانب سے یہ سرمایہ ملنے کا امکان زیادہ ہے۔

فوزیہ آدم کہتی ہیں کہ ایک اور مسئلہ بھی ہے، کوٹے کا تعین ہو بھی جائے تو خواتین کے لیے معاملات آسان نہیں ہوں گے، جب تک کہ ‘4.5 پالیسی’ موجود ہے۔ یہ فیصلہ روایتی قبائلی رہنما کرتے ہیں کہ پارلیمنٹ میں کون جائے گا اور وہ عورتوں کے سیاست میں حصہ لینے پر یقین نہیں رکھتے۔ صومالیہ اب بھی ‘ایک شخص، ایک ووٹ’ کی پالیسی کا منتظر ہے جو دراصل اگلے مہینے ہونے والے انتخابات میں لاگو ہونا تھی۔ ‘4.5 پالیسی’ کے تحت اراکین پارلیمنٹ لوگوں کی جانب سے نہیں بلکہ قبائلی وفود کی جانب سے منتخب کیے جاتے ہیں، ان کا چناؤ پہلے قبائلی بزرگ کرتے ہیں۔ وفود میں قبائلی بزرگ خود شامل ہوتے ہیں لیکن 30 فیصد خواتین اور 30 فیصد نوجوان بھی ہوتے ہیں۔ ملک کے چار سب سے بڑے قبائل یکساں نشستیں پاتے ہیں اور چھوٹے قبائل ان کی آدھی۔

رواں سال انتخابات میں حصہ لینے والی ایک اور امیدوار لعول اسحق آدم کہتی ہیں کہ اس قبائلی غلبے کے نظام میں خواتین کا کامیاب ہونا بہت مشکل ہے۔ "ہمارے کئی مسائل ہیں، مثلاً خواتین کو مردوں کے مقابلے میں جسمانی، ذہنی اور مالی لحاظ سے کمزور سمجھا جاتا ہے۔ ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ چند قبائل اور ذیلی قبائل اپنے بزرگوں پر دباؤ ڈالتے ہیں کہ وہ مردوں کو نمائندہ مقرر کریں۔ لیکن مجھے امید ہے کہ میں نشست جیت لوں گی کیونکہ ایک خواب ایسا ہوتا ہے جو سب پورا کرنا چاہتے ہیں۔”

دقا صلاد کہتی ہیں خواتین کو سپورٹ کی ضرورت ہے، سول سوسائٹی کو پارلیمنٹ میں جانے والی خواتین کا سہارا بننا چاہیے۔ مل کر 30 فیصد کوٹے کو حاصل کیا جا سکتا ہے۔ صرف سیاست ہی میں نہیں بلکہ معاشرے کے ہر شعبے میں۔

One Ping

  1. Pingback: عراق کے انتخابات میں حصہ لیتی سینکڑوں بہادر خواتین - دی بلائنڈ سائڈ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے