سارہ عمر، جو مسلمان خواتین کے لیے ممنوعات کو توڑ رہی ہیں

جنگ کی ہولناکیوں کے دوران عراقی کردستان میں جنم لینے والی سارہ عمر اب مذہب کے نام پر عورتوں کو دبانے اور ان پر تشدد کے خلاف ایک توانا آواز ہیں۔

اب ڈنمارک میں رہنے والی 34 سالہ سارہ کہتی ہیں کہ "میں نے ممنوعات کو توڑا ہے۔ ان موضوعات پر بات کی ہے، جس پر آپ بات نہیں کر سکتے۔ اگر میں ایسا نہیں کروں گی تو کون کرے گا؟”

ان کے پہلے ناول "Dead Washer” کی ڈنمارک میں ایک لاکھ نقول فروخت ہوئیں، جو 2017ء میں شائع ہوا تھا۔ ایک ایسے ملک میں یہ ادبی لحاظ سے ایک بڑا کارنامہ ہے کہ جس کی کُل آبادی ہی 58 لاکھ ہے۔ اس ناول کو "مسلمانوں کا می ٹو” کہا جاتا ہے۔ بعد ازاں اس کے کئی زبانوں میں ترجمے ہوئے جیسا کہ نارویجیئن، سوئیڈش اور فرنچ میں۔

اپنی تحاریر اور تقاریر میں وہ بند دروازوں کے پیچھے عورتوں اور بچوں پر ہونے والی مظالم پر بات کرتی ہیں –جیسا کہ ریپ، مار کٹائی، عورتوں کے ختنے اور نام نہاد غیرت کے نام پر قتل۔

ان سے مسلم معاشرے کا ایک چھوٹا سا طبقہ خفا بھی ہوا ہے، یہی وجہ ہے کہ اب وہ 24 گھنٹے پولیس کے تحفظ میں رہتی ہیں۔

سارہ عمر کا بہترین ناول فرمیسک نامی ایک لڑکی کی داستان بیان کرتا ہے، جس کے نام کا کردش زبان میں مطلب ہے ‘آنسو۔’

یہ 1986ء میں سلیمانیہ، عراقی کردستان میں اس کردار کی پیدائش سے شروع ہوتا ہے – بالکل سارہ عمر کی اپنی طرح – اور 2016ء میں اس کی ملاقات ہسپتال کے بستر پر ایک میڈیکل طالب علم سے ہوتی ہے، ایک نوجوان کرد لڑکی سے جو اپنے انتہائی سخت والد کی گرفت سے آزاد ہونے کے خواب دیکھتی ہے لیکن ایسا کرنے کی ہمت نہیں پاتی۔

سارہ عمر کہتی ہیں کہ کئی مسلمان خواتین نے، خاص طور پر اسکینڈے نیوین ملکوں رہنے والی جو خود کو نئے ملک کی آزادی خیالی اور والدین کی قدامت پسندانہ اقدار کے درمیان پھنسا ہوا پاتی ہیں، ان مشکلات کا ذکر کرنے پر میرا شکریہ ادا کیا ہے۔ "میری کتابوں نے ایک خاموش تحریک کا آغاز کیا ہے، خاص طور پر ان ممالک کی مسلمان خواتین میں، کیونکہ وہ خود کو ان موضوعات اور ناولوں کے کرداروں کے قریب پاتی ہیں۔ ایک خاتون کے ردعمل نے جو مجھے چھو لیا اور مجھے رونا آ گیا، جو 45 سے 50 سال کی تھیں، میری طرف آئیں اور کان میں سرگوشی کی "ہمیں آواز عطا کرنے کا شکریہ۔”

سارہ عمر مہاجر کیمپوں میں چند سال گزارنے کے بعد 15 سال کی عمر میں ڈنمارک پہنچیں، بالکل فرمیسک کی طرح۔ ان کی صورت بھی ویسی ہی ہے، سیاہ بالوں میں سفید لکیر۔ عمر بتاتی ہیں کہ ان کی شادی ہوئی تھیں اور وہ ایک "قتل کی گئی لڑکی کی ماں” ہیں اور خودکشی کی چند کوششوں کے بعد ایک نفسیاتی ہسپتال میں فرمیسک کی کہانی لکھنا شروع کی۔

ان کے لیے کتاب لکھنا "کوئی خواب نہیں تھا بلکہ میں اسے ایک آواز سمجھتی ہوں کیونکہ میں نے اس کے لیے سب کچھ قربان کیا۔”

وہ خود کو "متشکک” سمجھتی ہیں لیکن کہتی ہیں وہ مذہب پر تنقید نہیں کرتیں اور ان کا پیغام آفاقی ہے۔

فرمیسک کی کہانی مکمل نہیں ہوئی تھی۔ اس لیے 2019ء میں انہوں نے اس سلسلے کا اگلا ناول "Shadow Dancer” لکھا۔ اس ناول کو بھی ڈنمارک میں کئی ادبی انعامات مل چکے ہیں۔

"میں نے فرمیسک کی کہانی مکمل نہیں کی تھی کیونکہ وہ محض ایک مظلوم بچی اور عورت کی کہانی نہیں تھی۔ وہ ایک باغی روح ہے اور مجھے اس کی کہانی مزید آگے بڑھانے کی ضرورت تھی۔”

سارہ عمر اس وقت علوم سیاسیات میں ماسٹرز کر رہی ہیں، اور اپنی کتابوں کے کردش اور عربی زبان میں ترجمے کر رہی ہیں۔ وہ چاہتی ہیں کہ یہ ناول اپنے اخراجات سے شائع کروائیں تاکہ یہ سینسرشپ سے نہ گزریں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے