بھارت میں ایک اور ہندو-مسلم جوڑا انتہا پسندوں کے نرغے میں

بھارت کی ریاست مدھیہ پردیش کے شہر جبل پور میں اپنی شادی رجسٹر کروانے والے ایک جوڑے کو دو ہندو انتہا پسند گروہوں کی جانب سے بری طرح ہراساں کیا گیا ہے۔ 21 سال کا نوجوان اور 18 سال کی لڑکی جبل پور میں اپنی شادی کی رجسٹریشن کروانے کلیکٹرز آفس میں آئے تھے کہ جہاں ہندم دھرم سینا کے کارکنان نے انہیں گھیر لیا۔ بتایا جاتا ہے کہ وہ اس معاملے کی سُن گُن لینے کے لیے پہلے ہی وہیں موجود تھے۔

اس موقع پر لڑکی نے صحافیوں کو بتایا کہ وہ اپنی مرضی سے شادی کر رہی ہے۔ "مجھے پتہ ہے یہ مسلمان ہے۔ میں اس سے محبت کرتی ہوں اور اپنی مرضی سے شادی کر رہی ہوں۔”

لڑکی کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ وہ پہلے ہی سے 18 سال کی ہے اور تین مہینے میں اس کی اگلی سالگرہ ہوگی۔ لیکن اس نے ابھی تک اپنے گھر والوں کو اس بارے میں نہیں بتایا تھا۔

ہندو گروپوں کا کہنا ہے کہ لڑکے نے وہاں سے فرار ہونے کی کوشش کی لیکن اسے پکڑ کر پولیس کے حوالے کر دیا گیا۔ جس نے لڑکے کو حراست میں لیا اور لڑکی کو اپنے والدین کے پاس جانے کا کہہ دیا۔ البتہ بتایا جاتا ہے کہ لڑکے کو کچھ گھنٹوں بعد رہا کر دیا گیا تھا۔

اومتی پولیس اسٹیشن کے انچارج شیوپرتاپ سنگھ کا کہنا ہے کہ لڑکے نقصِ امن کے خطرے کی وجہ سے حراست میں لیا گیا تھا۔ جبکہ جبل پور کے سپرنٹنڈنٹ پولیس سدھارت بہوگونا کا کہنا ہے کہ انہوں نے کوئی مقدمہ درج نہیں کیا کیونکہ لڑکی کی ماں کا کہنا ہے کہ وہ اس معاملے کو آگے نہیں بڑھانا چاہتے۔

ہندو دھرم سینا کے سربراہ یوگیش اگروال کا کہنا ہے کہ یہ جبری تبدیلی مذہب کا معاملہ ہے اور "لو جہاد” ہے۔ لڑکی کو مسلمان لڑکے کی جانب سے پھنسایا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ لڑکی کی ماں سے کہیں گے کہ جیسے ہی ریاست میں ‘لو جہاد’ کے خلاف نیا قانون لاگو ہو جائے، تو اس لڑکے کے خلاف مقدمہ درج کروائیں۔ اگروال کا دعویٰ تھا کہ لڑکی مذہب تبدیل کر چکی ہے اور دونوں کا نکاح پہلے ہی ہو چکا ہے۔ جبکہ ایک خاتون ہندو انتہا پسند رہنما لتا سنگھ ٹھاکر نے کہا کہ میں والدین سے کہنا چاہتی ہوں کہ بیٹیوں کے معاملے میں اتنا آزاد خیال نہ بنیں۔ ایسے بہت سے واقعات سامنے آ رہے ہیں کہ مسلمان لڑکے ہندو لڑکیوں کو بہلا پھسلا کر ان سے شادیاں کر لیتے ہیں اور انہیں مسلمان کر کے چھوڑ دیتے ہیں۔

واضح رہے کہ یہ واقعہ اسی دن پیش آیا ہے، جس روز ریاست کے وزیر اعلیٰ شیوراج سنگھ چوہان نے مدھیہ پردیش آزادئ مذہب آرڈیننس 2020ء کا اعلان کیا۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کی ریاستی کابینہ نے منگل کو اس آرڈیننس کی منظوری دی اور اسے منظوری کے لیے گورنر کو ارسال کر دیا۔ اس قانون کے تحت تبدیلی مذہب چاہے شادی کے ذریعے ہو یا کسی بھی فراڈ طریقے سے، اس پر قید اور جرمانے کی سزائیں تجویز کی گئی ہیں۔ اگر لڑکی کم عمر ہو یا اس کا تعلق شیڈول کاسٹ سے تو یہ 2 سے 10 سال قید کی سزا ہو سکتی ہے۔ اس کے علاوہ مذہب کو چھپانے کی کوشش پر بھی تین سے 10 سال قید اور کم از کم 50 ہزار روپے جرمانے کی سزا ہوگی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے