کرسمس کے تہوار پر دنیا جہاں میں صرف خوشیاں نظر آتی ہیں، لیکن لاہور کے علاقے یوحنا آباد کی مسیحی برادری نے یہ دن بھی خوف کے سائے تلے گزارا۔
مقامی اوباش نوجوانوں نے پارک میں کرسمس کی خوشیاں مناتے مسیحی خاندانوں کو تنگ کیا اور اس دوران لڑکیوں کو چھیڑنے اور ان کی تصاویر لینے سے منع کرنے پر مزاحمت کے جواب میں کچھ ہی دیر میں ڈنڈوں سے مسلح ہو کر مسیحی نوحوانوں کو نشانہ بنایا۔ اس واقعے میں میں 7 مسیحی زخمی ہوئے، جن میں ‘مسیحی بشارتی چرچ’ کے سکیورٹی گارڈ بھی شامل ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ مقامی آبادی نے ایک شخص کو پکڑ کر مقامی پولیس کے بھی حوالے بھی کیا لیکن اسے فوراً ہی چھوڑ دیا گیا۔
مقامی افراد کے مطابق یہ اس طرح کا ساتواں واقعہ ہے، حالانکہ اس معاملے پر ماضی میں صلح بھی ہوئی تھی اور ہمیں یقین دہانی کروائی گئی تھی کہ اس طرح کا واقعہ دوبارہ پیش نہیں ہوگا لیکن ایک مرتبہ پھر کرسمس ہی کے دن ایسا ہی ہوا۔ اُن کا کہنا تھا کہ اب عالم یہ ہے کہ مسیحی برادری سے تعلق رکھنے والے افراد جہاں بھی نظر آتے ہیں، انہیں دھمکایا جاتا ہے بلکہ موقع ملنے پر مار پیٹ کا نشانہ بھی بنایا جاتا ہے۔ "ان کے لڑکے ٹولیاں بنا کر گلیوں، محلّوں اور بازاروں کے باہر کھڑے ہیں۔ اگر ہماری لڑکیاں نظر آتی ہیں تو ان پر آوازے کستے ہیں، انہیں تنگ کرتے ہیں اور جہاں کوئی لڑکا نظر آ جائے تو اسے پکڑ کر مارتے پیٹتے ہیں۔ ہماری تو خوشیوں کا دن بھی انہوں نے ماتم میں بدل دیا۔”
مسیحیوں کا کہنا ہے کہ یہ 35 سے 40 اوباش نوجوانوں کا ایک گروپ ہے، جن کا کام ہی لڑکیوں کو تنگ کرنا ہے۔ انہوں نے وزیر اعظم عمران خان اور وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار سے مطالبہ کیا کہ وہ اس معاملے کی تحقیقات کروائیں۔ ساتھ ہی حکومت کو گرجوں اور مسیحی آبادیوں کو سکیورٹی فراہم کرنے کے وعدے بھی یادد لائے کہ جن پر اب تک عملدرآمد نہیں ہوا۔ مقامی افراد کا کہنا ہے کہ اب نوجوانوں نے بازاروں کا رخ کرنا چھوڑ دیا ہے جبکہ خواتین نے عبادت کے لیے چرچ تک جانا بھی ترک کر دیا ہے کیونکہ ان میں عدم تحفظ کا احساس ہے۔ "اس سے پہلے کہ ہمیں سڑکوں پر آنا پڑے، ہمیں تحفظ فراہم کیا جائے۔”
مسیحی برادری پاکستان کی کُل آبادی کا 2 فیصد ہے اور ملک کی غریب ترین برادریوں میں ایک ہے۔ انہیں امتیازی سلوک بلکہ تشدد تک کا سامنا رہتا ہے۔ اسی یوحنا آباد میں چند سال پہلے ایک گرجے کے قریب خودکش حملے میں درجنوں افراد مارے گئے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ مسیحی برادری سمجھتی ہے کہ سیاست دان کسی واقعے کے بعد تعزیت کرنے تو بہت جلدی پہنچ جاتے ہیں، لیکن قبل از وقت اقدامات اٹھانے میں سستی دکھاتے ہیں۔
جواب دیں