وباء، امیر غریب کی بڑھتی ہوئی خلیج اور صنفی عدم مساوات

گزشتہ 12 مہینوں میں کووِڈ-19 نے امیر اور غریب کی خلیج کو کہیں بڑھا دیا ہے۔ اقوامِ متحدہ کے ادارے انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن (ILO) نے رواں سال فروری میں ہی اس کی نشاندہی کر دی تھی اور کہا تھا کہ اس سے غیر رسمی شعبوں سے وابستہ دو ارب افراد خاص طور پر اس کی زد میں ہیں۔ پھر مارچ میں پیش گوئی کی کہ کروڑوں افراد بے روزگار یا متاثر ہوں گے۔

ILO کے ڈائریکٹر جنرل گائے رائیڈر نے کہا کہ "یہ محض صحت کا عالمی بحران نہیں بلکہ یہ لیبر مارکیٹ اور معیشت کا بحران بھی ہے جو لوگوں کی زندگیوں پر سنگین اثرات مرتب کر رہا ہے۔” ادارے نے اس کے اثرات گھٹانے کے لیے سفارشات بھی پیش کیں، جن میں کام پر ملازمین کو تحفظ دینا، معاشی اور روزگار کے حوالے سے امدادی پروگرامز کا آغاز اور جاب سپورٹ شامل ہیں۔

لیکن اپریل تک اندازہ ہو چکا تھا کہ عالمی بحران اب ایک یقینی صورت اختیار کر چکا ہے۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ نے ظاہر کیا کہ غربت کی شرح بڑھ رہی ہے اور بھوک سے دوچار افراد کی حالت بدترین ہے۔ جو ممالک پہلے ہی خوراک کے بحران سے دوچار ہیں، وہ تو اس وباء کی زد پر ہیں۔ اس تحقیق میں کہا گیا کہ "ہمیں بہرصورت فوڈ سپلائی چینز کو برقرار رکھنا ہوگا تاکہ لوگوں کو زندگی بچانے والی اشیائے خورد و نوش ملتی رہیں اور یہ بحران ان کے لیے موت کا پیغام نہ بن جائے۔”

پھر پبلک ٹرانسپورٹ کو ‘فوڈ ہب’ کے طور پر استعمال کرنے سے لے کر ہوم ڈلیوری کے روایتی طریقوں اور موبائل منڈی تک، غریبوں کو خوراک پہنچانے کے لیے کئی نت نئے طریقے اختیار کیے گئے۔

اقوام متحدہ کے ترقیاتی ادارے (UNDPF) کے سربراہ آخم اشٹائنر کا کہنا ہے کہ اس وبائی بحران کا سب سے زیادہ بوجھ خواتین برداشت کر رہی ہیں، کیونکہ ان کی آمدنی کا ذریعہ ختم ہونے کا خطرہ بھی سب سے زیادہ ہے اور سماجی تحفظ (سوشل سکیورٹی) اقدامات میں ان کا حصہ بھی کم ہوتا ہے۔

ستمبر میں جاری کردہ ڈیٹا کے مطابق واقعی وباء کا زیادہ اثر خواتین پر ہی پڑا ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق وباء کے دوران خواتین میں غربت کی شرح میں 9 فیصد اضافہ ہوا ہے، جو تقریباً 47 ملین خواتین بنتی ہیں۔ یوں انتہائی غربت کے خاتمے کے لیے گزشتہ کئی دہائیوں کی کوششیں کھٹائی میں پڑ گئی ہیں۔

اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خواتین ‘یو این ویمن’ کے مطابق خواتین میں انتہائی غربت کی شرح میں یہ اضافہ دراصل ہمارے نظام کی خامیوں کو ظاہر کرتا ہے، جن کی بنیاد پر ہمارا معاشرہ اور معیشت کھڑی ہے۔

اشٹائنر نے زور دیا کہ خواتین کی زندگیوں کو بہتر بنانے کے لیے اس بحرانی دور میں بھی کئی ذرائع موجود ہیں۔ مثلاً اگر حکومتیں تعلیم اور فیملی پلاننگ تک رسائی کو بہتر بنائیں اور اس امر کو بھی یقینی بنائیں کہ خواتین کی تنخواہیں یکساں اور مردوں کے برابر ہوں تو 100 ملین خواتین کو غربت سے نکالا جا سکتا ہے۔

اقوام متحدہ کا اندازہ ہے کہ 2021ء میں ریکارڈ 235 ملین افراد کو امداد کی ضرورت ہوگی، جو 2020ء کے مقابلے میں تقریباً 40 فیصد زیادہ ہے اور یہ صورت حال اس وباء سے پیدا ہوئی ہے۔

یو این ایمرجنسی ریلیف کے سربراہ مارک لوکک کہتے ہیں کہ اگلے انسانیت کو درپیش چیلنجز میں کہیں زیادہ اضافہ ہو سکتا ہے۔ اگر ہم نے 2021ء میں کسی قحط کا سامنا نہیں کیا تو یہی بہت بڑا کارنامہ ہو گا۔ ان کے الفاظ میں "سرخ بتیاں جل رہی ہیں اور خطرے کی گھنٹیاں بج رہی ہیں۔”

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے