جنسی بلیک میلنگ کے خلاف ایک دوسری کی مدد کرتی ہوئی خواتین

اپنی عمر کی زیادہ تر لڑکیوں کی طرح 19 سالہ نور (فرضی نام) بھی محبت میں اندھی ہو گئی تھی۔ چھ مہینوں تک تو نور کو ایسا لگتا رہا کہ کوئی پریوں کی داستان چل رہی ہے، یہاں تک کہ بوائے فرینڈ نے اس سے عریاں تصاویر مانگ لیں۔ وہ بتاتی ہے کہ "ابتداء میں تو میں نے انکار کر دیا لیکن کئی مرتبہ کے اصرار اور ان وعدوں پر کہ وہ کبھی میرے اعتماد کو ٹھیس نہیں پہنچائے گا، میں نے اپنی کچھ تصویریں اسے بھیج دیں۔”

اور پھر وہی ہوا، اس کے مطالبات بڑھتے چلے گئے اور اس مرتبہ وہ صرف تصویریں نہیں مانگ رہا تھا۔ "جب میں نے اس پر واضح کر دیا کہ ایسا نہیں ہو سکتا تو اس نے مجھے دھمکانا شروع کر دیا کہ اگر میں نے بات نہ مانی تو وہ یہ تصویریں میرے گھر والوں کو بھیج دے گا۔ اگر میرے خاندان کو پتہ چلتا کہ میں نے اسے اپنی ایسی تصویریں بھیجی ہیں تو اس سے میرا تعلق ہمیشہ کے لیے ختم ہو جاتا۔”

شام میں دیگر مسلم اکثریت رکھنے والے ممالک کی طرح شادی سے پہلے کوئی بھی ایسا عمل ایک بے حیائی کا اور بے شرمی والا کام سمجھا جاتا ہے۔ نور کو اندازہ نہیں تھا کہ اسے اب کیا کرنا چاہیے، یہاں تک کہ اس کی ایک دوست نے اسے ‘گارڈینیا’ کے بارے میں بتایا۔

‘ڈوئچے ویلے’ کے مطابق شام کی ڈاکٹر زینب العاصی نے 2017ء میں ‘گارڈینیا’ بنائی تھی تاکہ وہ خواتین کے مسائل کے حوالے سے شعور اجاگر کریں اور انہیں با اختیار بنائیں۔ 2019ء میں گارڈینیا نے "یہ آپ کا حق ہے” نامی مہم کا آغاز کیا تاکہ جنسی بلیک میلنگ یا ہراسگی کا شکار خواتین اپنی خاموشی توڑیں۔ اب تک 1,100 شامی خواتین اپنی داستان کے ساتھ سامنے آئی ہیں۔

ڈاکٹر العاصی بتاتی ہیں کہ "ان تمام کیسز میں جو ایک چیز مشترک ہے، وہ ہے خوف۔ والدین کا خوف، معاشرے کا خوف۔ یہ ہمارے مہم کے لیے بڑے چیلنجز میں سے ایک ہے۔”

مہم کی کوشش ہے کہ جنسی بلیک میلنگ کی شکار خواتین کی قانونی لحاظ سے بھی مدد کی جائے اور نفسیاتی لحاظ سے بھی۔ انہیں مفت قانونی مشوروں کے لیے مختلف وکلاء کے تعاون سے کام کیا جاتا ہے اور تقریباً 90 فیصد کیسز ایسے ہیں، جن میں معاملہ پولیس تک پہنچتے ہی دھمکیاں دینے والا مرد تصفیے پر مجبور ہو جاتا ہے۔

شام میں قانون کے تحت بلیک میلنگ کرنے والے کو دو سال قید اور جرمانے کی سزا دی جاتی ہے اور یہ سزا دو گنی ہو سکتی ہے اگر یہ جرم آن لائن کیا گیا ہو کیونکہ یہ سائبر کرائمز کے زمرے میں آتا ہے جن کی سزا سخت ہے۔ اس کے علاوہ دوسروں کی پرائیویسی کو متاثر کرنے والا کوئی بھی آن لائن مواد پیش کرنے پر ایک سے چھ ماہ قید اور 1 سے 5 لاکھ شامی لیرا تک کا جرمانہ بھی ہو سکتا ہے۔

گارڈینیا کی قانونی مشاورت کے بعد نور نے اپنے سابق بوائے فرینڈ کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور اسے کہا کہ اگر اس نے دھمکی پر عملدرآمد کیا تو وہ معاملے کو عدالت میں لے جائے گی۔ "جب اسے اندازہ ہوا کہ میں عدالت جانے میں سنجیدہ ہوں تو وہ رُک گیا اور منظرِ عام سے ہی غائب ہو گیا۔”

لیکن اس معاملے کے ذہنی اور جذباتی اثرات بھی ہیں جو باآسانی جان نہیں چھوڑتے۔ اس لیے ‘گارڈینیا’ کی مہم میں ایسی لڑکیوں کے لیے نفسیاتی سیشنز بھی شامل ہیں جن میں رضاکارانہ طور پر اپنی خدمات دینے والے ماہرینِ نفسیات اور معالجین شرکت کرتے ہیں اور بلیک میلنگ کی شکار خواتین کو اپنی نارمل زندگی کی طرف لوٹنے میں مدد دیتے ہیں۔

صرف ‘گارڈینیا’ ہی شام کا واحد غیر سرکاری ادارہ (این جی او) نہیں جو جنسی بلیک میلنگ کی شکار خواتین کی مدد کر رہا ہے۔ ایک وکیل بارا الترن بھی ہیں جو ایسی دھمکیوں کا نشانہ بننے والی خواتین کو قانونی مشاورت دینے کا کام کرتی ہیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ "اس کا آغاز میرے گرد و پیش میں ایسے چند واقعات پیش آنے کے بعد ہوا۔ چند خواتین نے مدد کے لیے مجھ سے رابطہ کرنا شروع کیا تو میں نے انہیں مفت قانونی مشورے دیے۔ تین معاملات تو قانونی کارروائی تک پہنچے جبکہ ایسی خواتین بھی تھیں کہ جنہوں نے مشاورت تو مجھ سے کی لیکن میں عدالت میں ان کی وکیل نہیں تھی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جب بھی معاملہ عدالت تک پہنچتا ہے، عموماً لڑکا بھاگ جاتا ہے اور عدالت سے باہر ہی تصفیہ کرنے کی کوشش کرتاہے۔”

الترن نے اس بات سے اتفاق کیا کہ والدین کے ردعمل کا خوف ہی وہ بنیادی خدشہ ہے جو مجھ سے رابطہ کرنے والی تمام لڑکیوں کو سب سے زیادہ تھا۔ انہوں نے بتایا کہ حمص میں یونیورسٹی کی ایک طالبہ نے ابھی چند مہینے پہلے ہی اس لیے خودکشی کر لی تھی کہ اس کے بوائے فرینڈ نے اس کی عریاں تصاویر آن لائن لگانے کی دھمکی دی تھی۔

بدقسمتی سے شام میں ایسی کسی صورت میں معاشرہ الٹا لڑکی ہی کو غلط ٹھہراتا ہے۔ الترن بتاتی ہیں کہ معاشرہ سمجھتا ہے کہ کیونکہ لڑکی ایسی تصاویر دکھانے پر رضامند تھی تو اس قابل تھی کہ اس کے ساتھ ایسا ہوتا۔

ویسے شام میں جنسی طور پر ہراساں کرنا یا استحصال کرنا کوئی نئی چیز نہیں ہے لیکن سوشل میڈیا کے پھیلنے اور 10 سال کی خانہ جنگی نے ہراساں کرنے والوں کے لیے شکار کرنا آسان بنا دیا ہے۔ اس پر طرّہ کووِڈ-19 سے پیدا ہونے والی صورت حال ہے۔ اب لوگ مجبور ہیں کہ گھروں پر رہیں اور زیادہ وقت آن لائن گزاریں، یوں سوشل میڈیا پر ایسے کیسز بڑھ گئے ہیں۔

20 سالہ شمس السحر کو کئی بار آن لائن ہراسگی کا سامنا کرنا پڑا، جس کے بعد انہوں نے ستمبر میں اپنی تین دوستوں کے ساتھ مل کر آن لائن ہراسگی سے نمٹنے کے لیے ایک گروپ بنایا۔ اس گروپ کا بنیادی ہدف ان فیس بک اکاؤنٹس کا خاتمہ کروانا ہے کہ جہاں سے عورتوں کو ہراساں کیا جاتا ہے۔

شمس بتاتی ہیں کہ "ہمارے سامنے کئی ایسے کیسز آئے جن میں نوعمر لڑکیوں کے فیس بک اکاؤنٹس ہیک کیے گئے اور ان کی پرائیوٹ تصویریں آن لائن کی گئیں۔ ہم ایسے اکاؤنٹس کو جلد از جلد بند کرنے کی کوشش کرتے ہیں، اس سے پہلے کہ یہ تصویریں مزید پھیل جائیں۔”

انہوں نے کہا کہ ہراساں کرنے والے کے خلاف قانونی کارروائی میں وقت لگتا ہے، جب تک کہ مقدمہ دائر ہو تب تک تو تصویریں سوشل میڈیا پر پھیل جائیں گی اور جو اصل نقصان ہونا ہوگا وہ ہو جائے گا۔ اس لیے ہم اس گروپ کی مدد سے ایسے درجنوں فیس بک اکاؤنٹس بند کروا چکے ہیں کہ جو ایسی کسی بھی حرکت میں ملوث ہوں۔

اس گروپ کے اراکین کی تعداد اس وقت 2,400 ہے اور اس میں خواتین کے ساتھ ساتھ مرد بھی شامل ہیں۔ "ہم خواتین کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں کہ وہ اپنے مرد دوستوں اور خاندان کے مرد اراکین کو بھی اس گروپ میں شامل کریں۔” شمس نے کہا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے