خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والے اور بچوں کو اپنا دودھ پلانے کی تحریک دینے والی انجمنیں برطانیہ میں حکومت اور نیشنل ہیلتھ سروس (NHS) کے اس حکم کو چیلنج کر رہی ہں جن کے مطابق اپنے شیر خوار بچوں کو دودھ پلانے والی خواتین کو کووِڈ-19 سے بچاؤ کی ویکسین یا بچوں کو دودھ پلانے میں سے کسی ایک چیز کا انتخاب کرنا ہوگا۔
برطانوی NHS کا کہنا ہے کہ دودھ پلانے والی ماؤں کو کووِڈ-19 کی ویکسین کے لیے کچھ انتظار کرنا پڑے گا، یہاں تک کہ وہ بچوں کو دودھ پلانا بند کر دیں۔ حالانکہ NHS یہ بھی کہتا ہے کہ فی الحال اس امر کا کوئی ثبوت موجود نہیں کہ حاملہ اور دودھ پلانے والی ماؤں کے لیے ویکسین غیر محفوظ ہے۔ لیکن انہیں ویکسین لگانے سے پہلے مزید شواہد اکٹھے کرنا ضروری ہیں۔ اب تک دودھ پلانے والی خواتین کے لیے ویکسین ٹرائلز نہیں کیے گئے۔ اس لیے احتیاطاً حاملہ اور دودھ پلانے والی ماؤں کو ویکسین نہیں دی جائے گی۔
اس کا مطلب ہے کہ لاکھوں خواتین، جن میں صحت کے شعبے سے وابستہ صفِ اول میں کام کرنے والی 20 ہزار خواتین بھی شامل ہیں، اس فیصلے سے متاثر ہو سکتی ہیں۔ 2018-19ء کے مطابق انگلینڈ میں 6 سے 8 ہفتے کے بچوں کو تقریباً 46 فیصد مائیں اپنا دودھ پلا رہی تھیں۔
ہاسپٹل انفنٹ فیڈنگ نیٹ ورک (HIFN) کی ڈاکٹر وکی تھامس کا کہنا ہے کہ وہ خدشات کو سمجھتی ہیں لیکن ساتھ ہی انہوں نے زور دیا کہ اس ویکسین کے دودھ پلانے والی ماؤں یا ان کے بچوں کے لیے نقصان دہ ہونے کا کوئی ثبوت بھی نہیں ہے، اور اگر خطرہ ہے بھی تو معمولی سا ہے۔
اس وباء سے خواتین کو بچانے کا موقع چھیننا یا انہیں اپنی اور بچے کی صحت پر دودھ پلانے کے فوائد سے محروم کرنا اس حقیقت کی ایک اور مثال ہے کہ خواتین کووِڈ-19 کس طرح امتیازی طور پر متاثر ہوئی ہیں۔
ویمنز ایکوالٹی پارٹی کی ڈپٹی لیڈر ڈاکٹر ہینا برہیم براؤن کا کہنا ہے کہ کووِڈ-19 کے خلاف ہمارا بہترین دفاع یہ ویکسین ہے۔ اس لیے بغیر ثبوت کے اس بات پر زور دینا کہ چند خواتین تک اس کی رسائی نہیں ہونی چاہیے، ایک غیر ذمہ دارانہ عمل ہے۔ خاص طور پر ایک ایسے وقت میں جب ان خواتین کی اکثریت کا تعلق خطرے سے دوچار اہم کاموں سے ہے۔ "جب تک ادارے اس معاملے پر نظرثانی نہیں کرتے، خواتین کو بچوں کو دودھ پلانا چھوڑنے اور اپنے اردگرد کے لوگوں کو خطرے سے دوچار کرنے جیسے ناقابلِ قبول آپشنز کا سامنا کرنا پڑے گا۔”
HIFN، GP انفنٹ فیڈنگ نیٹ ورک اور بریسٹ فیڈنگ فار ڈاکٹرز نے گزشتہ ہفتے برطانوی ریگولیٹرز اور کووِڈ ویکسینز بنانے والوں کو ایک خط لکھا ہے انہیں صحت کے شعبے سے وابستہ بچوں کو دودھ پلانے والی کارکنوں کے نمائندہ اداروں کی حیثیت سے MHRA (میڈیسنز اینڈ ہیلتھ کیئر پروڈکٹس ریگولیٹری ایجنسی) کی جانب سے ‘سخت احتیاطی تدابیر’ اختیار کرنے اور اس کے ممکنہ اثرات پر سخت تشویش ہے۔”
کووِڈ-19 ویکسینز سے ماں کا دودھ پینے والے بچوں کو درپیش کسی خطرے کے ثبوت بہت کم ہیں۔ یہ عالم یہ ہے کہ انہیں ویکسین دینے سے ہی انکار کیا جا رہا ہے، یا بچے کو دودھ پلانا چھوڑنے پر یا اس حوالے سے جھوٹ بولنے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ خاص طور پر صحت کے شعبے سے وابستہ ان خواتین میں بہت تشویش پائی جاتی ہے کہ جو بچوں کو دودھ پلاتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انہیں ایک ناممکن صورت حال اور امتیازی سلوک کا سامنا ہے۔
چند خواتین تو پہلے ہی ویکسین لینے سے انکار کر چکی ہیں کیونکہ وہ مجبور ہیں کہ یا تو بچوں کو دودھ پلا لیں، یا اپنے کیریئر چھوڑ دیں یا خود کو ایک بڑے خطرے سے دوچار کریں۔ اور یہ سب اس لیے کیونکہ یہ بات ادویات بنانے والے ادارے اور ریگولیٹرز نہیں سمجھ رہے اور انہیں ترجیح نہیں دے رہے۔
جواب دیں