سانحہ پشاور، وہ 10 خواتین جنہوں نے شہادت کا رتبہ پایا

16 دسمبر کا دن پاکستانیوں کی یادوں سے کبھی محو نہیں ہو سکتا۔ 1971ء میں وطنِ عزیز کے دو لخت ہونے کا سانحہ اور 43 سال بعد اسی دن پشاور کے لہو سے سرخ ہونے کا واقعہ، ان دونوں سانحات کی وجہ سے ہر سال 16 دسمبر کا دن پاکستانیوں کو خون کو آنسو رلاتا ہے۔

سقوطِ ڈھاکا کو تو تقریباً نصف صدی بیت چکی، لیکن سانحہ پشاور ابھی کل ہی کی بات لگتا ہے، ایک ایسا زخم جس سے اب بھی خون رس رہا ہے۔ دہشت گردوں کے حملے میں 144 معصوم جانیں شہادت کے رتبے پر فائز ہوئیں اور ان کے ساتھ ہی ملک کی تاریخ نے ایک فیصلہ کُن موڑ لیا۔ دہشت گردوں کے خلاف ایک ملک گیر آپریشن کا آغاز ہوا اور چند سالوں میں ہی ان کے لیے کوئی ٹھکانہ نہیں بچا، یہاں تک کہ اس ناسور کا ملک سے خاتمہ کر دیا گیا۔

یہ آرمی پبلک اسکول، پشاور کے شہیدوں ہی کا فیضان ہے کہ آج صرف 6 سال بعد پاکستان ایک پُر امن ملک ہے، انہی کی قربانیوں کی بدولت آج پاکستان سیاحت اور کھیلوں کے حوالے سے دنیا کے اہم مراکز میں سے ایک بن رہا ہے، جبکہ چند سال پہلے ان کا تصور تک نہیں تھا۔

شہدائے پشاور میں خواتین کی قربانیاں بھی نمایاں تھیں۔ پرنسپل طاہرہ قاضی کا جرات و بہادری آج تک یاد کی جاتی ہے لیکن اس کے علاوہ بھی کئی خواتین اساتذہ نے اپنی جان پر فرض کو ترجیح دی اور بچوں کو دہشت گردوں سے بچانے کی کوششوں میں شہادت پائی۔

حفصہ خوش


23 سالہ پروفیسر خوش محمد کی صاحبزادی تھیں اور ایک سال قبل ہی آرمی پبلک اسکول، پشاور میں تدریس کی ذمہ داریاں سنبھالی تھیں۔ ایک مہربان، شفیق اور ذمہ دار ٹیچر کی حیثیت سے معروف تھیں اور ان کا ہدف پی ایچ ڈی کرنا تھا۔ وہ چاہتیں تو خود کو بچا سکتی تھیں لیکن انہوں نے زخمی طلبہ کو بچانے کے لیے اپنی جان کی پروا بھی نہ کی اور اس جدوجہد کے دوران ایک گولی لگنے سے خود بھی شہید ہو گئیں۔


سعدیہ گل خٹک


سعدیہ گل کی عمر صرف 24 سال تھی اور انہیں آرمی پبلک اسکول میں انگریزی پڑھاتے ہوئے صرف 5 مہینے ہوئے تھے۔ آپ نے انگریزی میں ماسٹرز کر رکھا تھا اور جامعہ پشاور سے بی ایڈ کی ڈگری بھی لے رکھی تھی۔ آپ کے والد گل شہزاد خٹک بھی پروفیسر تھے۔

سعدیہ ہنس مکھ شخصیت کی مالک تھیں اور دوستوں میں اٹھنا بیٹھنا اور گپ شپ کرنا ان کا پسندیدہ مشغلہ تھا۔ طلبہ انہیں ایک زبردست ٹیچر قرار دیتے تھے اور ان کی انگریزی پر گرفت کے بہت قائل تھے۔


حاجرہ شریف


28 سالہ حاجرہ شریف آرمی پبلک اسکول، پشاور میں کیمسٹری کی ٹیچر تھیں۔ انتہائی مددگار اور شائستہ و مہذب تھیں۔ کیمسٹری جیسے خشک مضمون کو بھی اس طرح پڑھاتیں کہ طلبہ کی پسندیدہ ٹیچرز میں شمار ہونے لگیں۔ انہوں نے بہت بہت کم وقت میں اپنی صلاحیتوں کو منوایا۔ وہ اپنے آبائی علاقے کرک میں لڑکیوں گے لیے ایک اسکول بھی کھولنا چاہتی تھیں۔


بینش عمر


30 سالہ بینش عمر کی زندگی کا مشن تدریس تھا۔ ایک ماں بھی تھیں، اور گھریلو ذمہ داریاں بھی ویسے ہی ادا کرتیں جیسے دفتری۔ طلبہ کو اپنی اولاد کی طرح سمجھتیں۔ لڑکیوں کی تعلیم کے لیے کچھ کرنا چاہتی تھیں اور کہتی تھیں کہ لڑکیوں کی تعلیم کے بغیر ملک ترقی نہیں کر سکتا۔ 16 دسمبر 2014ء کو اپنی جان بچا سکتی تھیں، لیکن انہوں نے زخمی طلبہ کو بچانے کو مقدم جانا اور اسی جدوجہد کے دوران ایک گولی لگنے سے شہید ہو گئیں۔


سحر افشاں


33 سالہ سحر بھی حملے کے وقت طلبہ کو نکالنے کی کوشش کر رہی تھیں لیکن اس کوشش میں اپنی جان دے بیٹھیں۔ وہ 2006ء سے آرمی پبلک اسکول، پشاور میں اردو پڑھا رہی تھیں۔ جامعہ پشاور سے اردو میں ماسٹرز تھیں اور ایم فل بھی کر رہی تھیں۔ اپنی محنت اور لگن سے تھوڑے سے عرصے میں سینئر مقام تک پہنچیں۔ اپنے خاندان کے لیے بھی ایک مثالی شخصیت تھیں۔ اسکولوں میں تقریری مقابلے کروانے میں ان کا کردار اہم ہوتا تھا۔


فرحت بی بی


39 سالہ فرحت بی بی دو بچوں کی ماں تھیں۔ ان کے شوہر عابد علی شاہ اور بیٹے باقر اور سطوت آج بھی انہیں بھول نہیں پائے۔ وہ تین سال سے آرمی پبلک اسکول، پشاور میں اردو کی تدریس کے فرائض انجام دے رہی تھیں۔ آپ عربی اور اسلامیات میں ڈبل ایم اے تھیں، اس کے علاوہ ایم اے اور بی ایڈ بھی کر رکھا تھا۔ حافظ قرآن بھی تھیں اور غریب اور ضرورت مندوں کی مدد کے لیے ہمیشہ کوشاں رہتیں۔


صائمہ زریں


39 سالہ صائمہ 17 سال سے آرمی پبلک اسکول میں انگریزی کی ٹیچر تھیں۔ ایجوکیشن میں ایم فل تھیں اور اسی موضوع پر پی ایچ ڈی بھی کر رہی تھیں۔ 20 اور 13 سال کی دو بچیوں کی ماں بھی تھیں۔ روزانہ 3 بجے اسکول سے واپس گھر پہنچتیں اور آتے ہی جامعہ کا رخ کرتیں۔ 7 بجے وہاں سے گھر پہنچتیں اور پھر گھریلو ذمہ داریاں نبھاتیں۔ خوش اخلاق و شائستہ تہذیب ہونے کے ساتھ ساتھ صائمہ نظم و ضبط کی پابند بھی تھیں۔ حملے والے دن وہ آڈیٹوریم میں بچوں کو بچا رہی تھیں، اس آنے جانے کے دوران ان کا مقابلہ ایک حملہ آور سے ہو گیا، جس نے آپ کو گولی مار دی۔


شہناز نعیم


42 سالہ شہناز 1994ء سے 1994ء سے آرمی پبلک اسکول، پشاور سے وابستہ تھیں۔ تین بچوں کی ماں تھیں اور کئی طلبہ کو متاثر کرنے والے ٹیچر بھی۔ تعلیم پر بہت زیادہ زور دیتی تھیں اور چاہتی تھیں کہ بچے اپنے والد کی طرح ڈاکٹر بنیں۔


صوفیہ حجاب


42 سالہ صوفیہ حجاب کو ان کی بیٹیاں ‘بہترین دوست’ کہتی ہیں۔ وہ ایک بہترین ماں اور ایک محنت کرنے والی ٹیچر تھیں۔ صرف دو سال پہلے جونیئر ٹیچر کی حیثیت سے آرمی پبلک اسکول میں آئی تھیں اور بہت کم عرصے میں سینئر ٹیچر کے عہدے پر فائز ہوئیں۔ حملے کے وقت آڈیٹوریم میں تھیں، لیکن کسی طرح وہاں سے نکلنے میں کامیاب ہو گئیں لیکن پھر طلبہ کو بچانے کے لیے پھر واپس آئیں۔ انہوں نے کئی زخمیوں کو آڈیٹوریم سے نکالا، یہاں تک کہ حملہ آوروں نے آپ کو قتل کر دیا۔


طاہرہ قاضی


64 سالہ طاہرہ قاضی لیفٹیننٹ کرنل (ر) قاضی ظفر اللہ خان کی اہلیہ تھیں اور تین بچوں کی ماں بھی۔ ان کی بڑی صاحبزادی 32 سالہ عارفہ قاضی، پھر 30 اور 24 سال کے دو صاحبزادے عمران اللہ قاضی اور احمد اللہ قاضی ہیں۔ آپ نے 1995ء میں انگلش ڈپارٹمنٹ کی سربراہ کی حیثیت سے آرمی پبلک اسکول جوائن کیا تھا اور 2006ء میں اسکول کی پرنسپل بن گئیں۔ زندگی کے 37 سال انہوں نے بچوں کی تعلیم کو دیے اور یہی ان کا مقصدِ حیات تھا۔

حملے میں بچ جانے والے طلبہ نے بتایا کہ میڈم طاہرہ قاضی کے آخری الفاظ تھے "یہ میرے بچے ہیں اور میں ان کی ماں ہوں۔” آج خیبر پختونخوا اسمبلی کا کانفرنس روم انہی کے نام پر ‘طاہرہ قاضی کانفرنس روم’ کہلاتا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے