زبیدہ کراچی کی ایک کچی آبادی میں رہنے والی لڑکی، جو باکسر بننا چاہتی ہے اور ایک لڑکے سے محبت بھی کرتی ہے۔ اس کا باپ ان "بے ہودہ” خواہشات پر اسے مارتا ہے۔ اس ظلم کو سہنے کے بجائے وہ باغی گھر چھوڑ کر اپنی من مرضی کی زندگی کا انتخاب کرتی ہے۔
زبیدہ ان کرداروں میں سے ایک ہے جو آن لائن سیریز "چڑیلز” میں شامل ہے، جس نے حالیہ کچھ عرصے میں خاصا تہلکہ مچایا ہے۔
کراچی میں بننے والی یہ سیریز عورتوں کے طاقتور کرداروں کو دکھاتی ہے، جو ملک میں خواتین کے حوالے سے دہرے معیارات اور امتیازی سلوک کو چیلنج کرتے ہیں۔
10 قسطوں کی یہ آن لائن سیریز بھارت کی آن ڈیمانڈ اسٹریمنگ ویب سائٹ ‘زی5’ کے لیے بنائی گئی تھی۔
کہانی چار عورتوں کے گرد گھومتی ہے کہ جو مختلف معاشی پسِ منظر رکھتی ہیں، اور اپنے حالات پر سمجھوتہ کرنے کے بجائے اپنے پیروں میں پڑی سماجی زنجیروں کو توڑ دیتی ہیں۔ یہ چار کردار مل کر ایک خفیہ ایجنسی بناتے ہیں تاکہ بے وفا اور دھوکے باز شوہروں کو پکڑیں۔
پاکستان کے ڈرامے کہ جو جنوبی ایشیا میں خاصے مقبول ہیں، عورتوں کو عموماً ایک بے یار و مددگار، کمزور اور حساس کردار ہی میں دکھاتے ہیں۔ خواتین کے منفی کرداروں سازشی اور مکار دکھایا جاتا ہے۔ کہانیاں عام طور پر خاندانی رشتوں کے گرد ہی گھومتی ہیں، جن میں خواتین یہاں تک کہ بہنیں بھی ایک ہی مرد کے لیے لڑتی دکھائی دیتی ہیں۔ آخر میں ‘انعام’ اسی کو ملتا ہے جو بااصول، باحیات اور معاف کرنے والی ہو۔
‘چڑیلز’ میں بنیادی کردار ادا کرنے والی ثروت گیلانی کہتی ہیں کہ پاکستانی ڈرامے عموماً خواتین کے لیے ہی بنائے جاتے ہیں لیکن اس کے باوجود انہیں کے مسائل اور کردار اوپر نہیں لاتے۔ میرے خیال میں کیونکہ عورتوں کو کمزور اور نرم مزاج دکھایا جاتا ہے، اس لیے ان کے ساتھ سلوک بھی ویسا ہوتا ہے۔
پاکستان میں خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی صدف خان کہتی ہیں کہ پاکستان میں ایک مضبوط عورت کا تصور کیا ہے؟ کہ وہ مفاہمت کرنے کی کتنی صلاحیت رکھتی ہے، یا وہ کتنی فرمانبردار ہے۔ پاکستانی ڈراموں میں مضبوط عورت وہ ہوتی ہے جو بہت زیادہ پریشانیوں کا مقابلہ کرے، مفاہمت کرے اور صبر کا مظاہرہ کرے۔
ہدایت کار عاصم عباسی کی ‘چڑیلز’ نے پاکستانی ڈراما سیریلز کی اسی یکسانیت کو توڑا ہے۔ سیریز کے کرداروں میں ایک عورت ایسی ہے جو شراب اور سگریٹ پیتی ہے، گالیاں دیتی ہے، یعنی اس عورت کے بالکل اُلٹ جیسی پاکستان میں ٹیلی وژن پر دکھائی جاتی ہے۔ اس سیریز میں ایک عورت ایسی دکھائی جاتی ہے جو اپنی بیٹی کے ساتھ ریپ کی کوشش کرنے والے شوہر کو قتل کرنے پر جیل کاٹ چکی ہے۔
اس سیریز میں جو مسائل اٹھائے گئے ہیں، انہوں نے پاکستان میں کافی ہنگامہ مچایا ہے۔ قدامت پسندوں نے اسے پاکستانی کلچر کی توہین قرار دیا ہے۔
یہ سیریز کئی ایسے موضوعات کا احاطہ بھی کرتی ہے کہ جن پر بات کرنا ممنوع سمجھا جاتا ہے اور عموماً پاکستانی معاشرہ ان پر غور نہیں کرتا۔ سب سے اہم یہ کہ ‘چڑیلز’ اس لیے متنازع بن گیا کیونکہ اس میں عورتوں کو دکھایا گیا ہے کہ وہ ایسی بدترین صورت حال سے کیسے نکل سکتی ہیں۔
Navigating Pakistani Feminism کی مصنفہ عائشہ سروری کہتی ہیں کہ اگر کسی ڈرامے کی کہانی بھی کسی معاشرے کو نقصان پہنچا سکتی ہے تو پھر اسے غور کرنا چاہیے کہ وہ کتنی کمزور ثقافتی بنیادوں پر کھڑا ہے۔ یہ ہنگامہ اس لیے ہے کیونکہ کوئی اچھی عورت چڑیل نہیں ہوتی۔ چڑیل عام جنوبی ایشیائی مرد کے تصور کی سب سے خوفناک عورت ہے کیونکہ وہی وہ واحد عورت ہوتی ہے کہ جس پر اس کا زور نہیں چلتا۔
‘زی5’ کے مطابق پاکستانی حکام نے ‘چڑیلز’ پر پابندی لگانے کے لیے ان پر دباؤ بھی ڈالا، جو حکومت کی ‘غیر اخلاقی’ مواد پر پابندی لگانے کی کوششوں کا حصہ ہے۔ لیکن آزاد خیال ناقدین نے بھی سیریز کے چند پہلوؤں پر تنقید کی ہے۔ جیسا کہ صحافی مہوش اعجاز نے کہا کہ سیریز سسٹم کو تو چیلنج کرتی ہے لیکن جس طرح کرتی ہے، اس سوال اٹھتا ہے۔ جیسا کہ ایک کردار کو بلیک میل کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے اور اسے عمل کو ٹھیک گردانا گیا ہے۔
لیکن ثروت گیلانی کہانی کو اچھا قرار دیتی ہیں اور کہتی ہیں کہ "چڑیلز لوگوں کو مطمئن کرنے کے لیے نہیں بنائی گئی۔ اسے تو اس لیے بنایا گیا ہے تاکہ لوگوں کا اطمینان ختم ہو کہ ہمارے معاشرے میں اتنی دراڑیں کیوں ہیں اور دروازوں کے پیچھے آخر ‘سب کچھ ٹھیک’ کیوں ہے؟
خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی صدف خان تجویز کرتی ہیں کہ اسکرپٹ لکھنے والوں کو پاکستان میں حقیقی مثالوں کو سامنے رکھنا چاہیے اور یہ دکھانے کی کوشش کرنی چاہیے کہ خواتین کس طرح پاکستانی معاشرے کی حرکیات بدل رہی ہیں۔ پروفیشنل پاکستانی خواتین کی جدوجہد کو ڈراموں میں دکھانے کی ضرورت ہے۔
جواب دیں