آج 18 دسمبر کو دنیا بھر میں مہاجرین کا عالمی دن منایا جا رہا ہے، جو ترقی کے سفر میں مہاجرین کے کردار کو نمایاں کرتا ہے۔
تحقیق ثابت کرتی ہے کہ مہاجرین اپنی زندگیاں بہتر بنانے کے ساتھ ساتھ اپنے اصل اور نئے وطن دونوں کی معیشت اور معاشرت کی تعمیر میں نمایاں کردار ادا کرتے ہیں۔ لیکن ایسے مثبت نتائج کا انحصار مکمل طور پر ہجرت کے بعد معاملات سنبھالنے پر ہے۔ ایک محفوظ اور قانونی ہجرت میں ناکامی، روزگار کے موزوں مواقع اور بنیادی خدمات تک رسائی کا محدود ہونا معاشی مسائل کو جنم دے سکتا ہے اور ان کے ساتھ امتیازی سلوک اور غیر ملکیوں سے خوف (xenophobia) کا خطرہ بڑھنے کا سبب بن سکتا ہے۔ اس طرح مہاجر برادریوں کو الگ تھلگ کرنے اور صنفی بنیاد پر تشدد سے خواتین کے حقوق کی بھی بیخ کنی ہوتی ہے۔
آج کئی ممالک کی توجہ ان ممکنہ خطرات کو نمایاں کرنے پر لگی ہوئی ہے جو ہجرت کے عوام اور معیشت پر پڑتے ہیں بلکہ چند سیاست دان تو معاشرے کے تمام مسائل کی ذمہ داری مہاجرین پر ڈال کر انہیں قربانی کا بکرا بناتے ہیں اور ہجرت سے جو فوائد حاصل ہوتے ہیں ان سے مکمل طور پر صرفِ نظر کرتے ہیں۔
اس لیے مہاجرین کے خلاف منفی جذبات کی روک تھام میں مدد، شہری بقائے باہمی کے فروغ اور پائدار ترقی میں مہاجرین کے حصے کو بہتر بنانے کے لیے سرمایہ کاری ضروری ہے۔ پائدار امن اور مشترکہ ترقیاتی اہداف کے حصول اور امتیازی سلوک سے نمٹنے کے لیے اقوام متحدہ کے ادارہ برائے ترقیات (UNDP) کی ترجیح معاشرے کے اندر پُر امن بقائے باہمی اور مہاجرین اور میزبانوں کے مابین اعتماد کا قیام ہے۔
یہ بھی پڑھیں: سلیمہ رحمٰن، افغان مہاجر ڈاکٹر جنہوں نے نانسن ایوارڈ جیتا ہے
اس کے لیے سماجی و معاشی تکمیل، بنیادی خدمات کی توسیع، عوامی سطح پر شعور اجاگر کرنا اور ایسے سماجی منصوبوں کا قیام ضروری ہے جو مہاجرین اور میزبان دونوں برادریوں کو قریب لائیں اور ساتھ ہی صنفی منصوبے بھی شامل ہیں جو لڑکیوں کی اسمگلنگ کو روکنے اور مہاجر خواتین کو با اختیار بنانے کا کام کریں۔
اس سلسلے میں اقوام متحدہ کا ادارہ برائے ترقیات حکومتِ ترکی کے ساتھ مل کر کام کر رہا ہے اور ترک اور شامی مہاجرین برادریوں کے 1,400 نوجوانوں کو انفارمیشن ٹیکنالوجی، کاروباری مشاورت اور کھیل، ثقافت اور سماجی سرگرمیوں، مثلاً شجر کاری، پر تربیت دے رہا ہے۔ اس کے علاوہ ملک میں موجود 36 لاکھ شامی مہاجرین کے لیے بنیادی خدمات کی فراہمی میں مقامی بلدیہ جات کی مدد بھی کی جا رہی ہے۔ اقوام متحدہ نے غازی عین تاب میں ایک جدید ویسٹ مینجمنٹ سسٹم بنایا ہے جو اب ترکی کے دیگر شہروں میں بھی استعمال ہو رہا ہے۔
ایک طرف جہاں مہاجر اور مقامی برادریوں کے سماجی میل جول میں خواتین اہم کردار ادا کر سکتی ہیں، وہیں اس پورے عمل سے ان کے باہر ہو جانے کا خدشہ بھی زیادہ ہوتا ہے۔ مثلاً روزگار کے مناسب مواقع تک رسائی سے محرومی، تعلیم و صحت کی سہولیات نہ مل پانے کے علاوہ تشدد اور انسانی اسمگلنگ کا خطرہ بھی انہی کو زیادہ ہوتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: افغان خواتین کی مدد کی جائے، اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے
اب وبا نے بھی مہاجرین کو درپیش مسائل بڑھا دیے ہیں، خاص طور پر نئی برادریوں کے ساتھ سماجی میل جول بری طرح متاثر ہوا ہے۔ اس کے باوجود درست انداز میں خرچ کی گئی امداد اور سماجی پالیسیوں کا قیام ایک جامع اور پائدار دنیا کے قیام میں مدد دے سکتا ہے۔
مہاجرین کے عالمی دن پر ہمیں ایک مرتبہ پھر یقینی بنانا ہوگا کہ ایک محفوظ اور باوقار زندگی کے حق کا تحفظ کریں اور ساتھ ہی غیر ملکیوں سے خوف اور امتیازی سلوک کا سبب بننے والے غلط تصورات کو بھی چیلنج کریں۔
جواب دیں