خواتین کے لیے زندگی بچانے والی جنسی و تولیدی صحت (reproductive health) کی خدمات اب پہلے سے کہیں زیادہ ضروری ہو گئی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اقوام متحدہ کے پاپولیشن فنڈ (UNFPA) نے اگلے سال میں بحران زدہ علاقوں میں خواتین کی مدد کے لیے 835 ملین ڈالرز کا مطالبہ کیا ہے۔ ادارے کا ہدف 61 ممالک کی ایسی 5.4 کروڑ خواتین اور لڑکیوں تک رسائی حاصل کرنا ہے ، جنہیں کسی تنازع، کشیدگی، کووِڈ-19 اور دیگر مسائل کی وجہ سے مدد کی اشد ضرورت ہے۔
ادارے کا کہنا ہے کہ اب وقت آ چکا ہے کہ جنسی و تولیدی صحت کی خدمات کو بھی دوسری ہنگامی طبّی خدمات کے برابر تسلیم کیا جائے، کیونکہ یہ بھی زندگی بچانے والی خدمات ہیں۔ اب جبکہ دنیا ایک کے بعد دوسری مصیبت سے دو چار، اس کی ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ ہے۔
UNFPA کی تازہ ترین سالانہ رپورٹ کے مطابق یہ مسلسل تیسرا سال ہے کہ یمن کو ایسی امداد درکار ہے بلکہ اسے فوری طور پر 100 ملین ڈالرز کی امداد کی ضرورت ہے۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان اور خاندانی منصوبہ بندی
حالیہ اندازوں کے مطابق ہر دو گھنٹے میں ایک عورت بچے کی ولادت کے دوران اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتی ہے اور 10 سال حاملہ اور دودھ پلانے والی مائیں ایسی ہیں جو در اصل کم خوراکی کا شکار ہیں۔
اس سلسلے میں یمن کے ضلع جیا میں ڈاکٹر ثمر جیسے کرداروں کی مدد کی جائے گی جن کے سامنے زندگی و موت کی کشمکش میں مبتلا خواتین کہیں زیادہ آتی ہیں۔ حال ہی میں صفیہ نامی ایک عورت ان کے کلینک پر لائی گئی تھی، جسے حمل کی پیچیدگیوں کا سامنا تھا۔ ڈاکٹر ثمر بتاتی ہیں کہ جب میں نے صفیہ کے شوہر کو بتایا کہ اس کی جان بچانے کے لیے فوری طور پر آپریشن کی ضرورت ہوگی تو اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ اس کے پاس اپنی بیوی کو ہسپتال لے جانے کے لیے کسی گاڑی کا کرایہ تک نہیں تھا۔
ڈاکٹر ثمر کے ہیلتھ سینٹر کے پاس بھی ایمبولینس نہیں ہے، بلکہ یہ کلینک پیسے نہ ہونے کی وجہ سے تقریباً ایک سال تک بند رہنے کے بعد حال ہی میں دوبارہ کھلا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: غیر محفوظ اسقاطِ حمل، پاکستان میں ایک بڑا مسئلہ
خوش قسمتی سے UNFPA کی امداد سے ڈاکٹر ثمر صفیہ کو قریبی ہسپتال پہنچانے کے لیے گاڑی کا انتظام کرنے میں کامیاب ہو گئیں، جو دو گھنٹے کے فاصلے پر تھا۔
رپورٹ میں ایسی ہی دوسری داستانیں بھی شامل ہیں جن سے پتہ چلا ہے کہ یمن کے بعد جنسی و تولیدی صحت کے لیے امداد کی فراہمی کی سب سے زیادہ ضرورت شام میں ہے۔ فوری طور پر ایسی خدمات کے لیے 68 ملین ڈالرز کی ضرورت ہے جو خواتین پر تشدد کو روکنے کے ساتھ ساتھ ان کے لیے ماہواری کی مصنوعات، صابن اور سردیوں میں گرم کپڑوں جیسی ضروری اشیا کی فراہمی کے لیے استعمال ہوں گے۔
اس سلسلے میں جن 10 ممالک کو سب سے زیادہ امداد کا مستحق قرار دیا گیا ہے، ان میں عوامی جمہوریہ کانگو، سوڈان، افغانستان، نائیجیریا، وینیزویلا، ہیٹی، بنگلہ دیش اور لبنان شامل ہیں۔
رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اگست میں ہیٹی میں آنے والے زلزلے کے بعد خواتین پر تشدد، ان کے ریپ اور اغوا کے واقعات میں بہت اضافہ ہوا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: تیزاب گردی، یمن میں خواتین پر تشدد کا بھیانک چہرہ
خواتین کو تشدد سے بچانے اور اس سے نمٹنے کے لیے اقدامات کے حوالے سے اقوام متحدہ کی ماہر ٹینا کیمی کہتی ہیں کہ بے گھر افراد زیادہ مشکلات اور مصیبتوں سے دوچار ہوتے ہیں کیونکہ وہ اپنے گھروں میں نہیں ہوتے اور اجنبیوں میں گھرے رہتے ہیں۔ پھر انہیں بیت الخلا جیسی بنیادی سہولیات تک بھی رسائی حاصل نہیں ہوتی۔
انہوں نے کہا کہ جنسی استحصال کا نشانہ بننے والی خواتین کی داستانیں سننا بہت مشکل ہوتا ہے۔ میں نے ایک 89 سالہ خاتون نے مجھے اپنے ساتھ پیش آنے والا واقعہ بتایا کہ کس طرح چند نوجوانوں نے انہیں ریپ کا نشانہ بنایا جبکہ ایک 3 سالہ بچی کی ماں کے ساتھ بھی ایسا ہی واقعہ پیش آیا۔
اقوام متحدہ ہیٹی میں زلزلہ متاثرین کے حالات بہتر بنانے کے لیے مقامی اداروں کے ساتھ مل کر مشاورتی اور طبّی خدمات فراہم کر رہا ہے۔
UNFPA ممکنہ حد تک یہ امداد حکام بالا کے ذریعے نہیں بلکہ مقامی خواتین اور نوجوان افراد کے ساتھ شراکت داری کے ذریعے پہنچا رہا ہے۔ ادارہ سال 2021ء میں اب تک تقریباً 3 کروڑ خواتین کو جنسی و تولیدی صحت کی خدمات فراہم کر چکا ہے۔ مزید 43 لاکھ نو عمر اور نوجوان افراد کو بھی خصوصی طور پر تیار کردہ خدمات پیش کی گئیں۔
اس کے علاوہ تقریباً 15 لاکھ بچوں کی محفوظ پیدائش کے لیے اور مزید 60 لاکھ کو خاندانی منصوبہ بندی میں مدد فراہم کی گئی اور 24 لاکھ سے زیادہ تشدد کی شکار خواتین کو نفسیاتی، قانونی اور مالی طور پر خود مختار بنانے کے لیے مدد کو بھی یقینی بنایا گیا۔
Pingback: افغانستان میں صحت کے شعبے کا بحران، ماؤں کی جانیں خطرے میں - دی بلائنڈ سائڈ