کینیڈا، حجاب پہننے پر خاتون ملازمت سے محروم

صوب کیوبک کا متنازع قانون ایک خاتون ٹیچر کی ملازمت سے محرومی کا سبب بنا ہے

کینیڈا میں ایک متنازع قانون کی وجہ سے حجاب پوش مسلمان خاتون کو اپنی ملازمت سے محروم کر دیا گیا ہے۔

صوبہ کیوبیک کے چیلسی ایلیمنٹری اسکول میں تیسری کلاس کی ٹیچر فاطمہ انوری کو چند ماہ تک ویسٹرن کیوبیک اسکول بورڈ میں متبادل ٹیچر کے طور پر کام کرنے کے بعد مستقل ملازمت کی پیشکش کی گئی تھی، جو انہوں نے موسمِ خزاں میں شروع کی تھی۔

صرف ایک ماہ بعد اسکول کے پرنسپل نے مبینہ طور پر فاطمہ کو بتایا کہ انہیں ان کے حجاب کی وجہ سے کلاس روم سے باہر کوئی دوسرا عہدہ دیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ "پہلے تو مجھے سخت صدمہ پہنچا۔ میرے لیے یہ بات ہضم کرنا مشکل تھا۔”

یہ بھی پڑھیں: جرمنی میں حجاب پر پابندی اور مسلمان خواتین کی جدوجہد

کیوبیک بل 21ء سرکاری ملازمین، بشمول نرسوں، اساتذہ اور پولیس افسران کو، مذہبی علامات پہننے سے روکتا ہے یعنی وہ پگڑی، حجاب، صلیب اور یہودیوں کی مذہبی ٹوپی "کپا” نہیں پہن سکتے۔

ناقدین کا کہنا ہے کہ اس قانون کا اصل مقصد مسلم خواتین کو بے حجاب کرنا ہے اور لوگوں کو اپنے مذہب یا اپنے کام میں سے کسی ایک کا استعمال کرنے پر مجبور کرنا ہے۔

اس امتیازی قانون کے خلاف عدالتوں میں متعدد درخواستیں دائر کی گئی ہیں لیکن حتمی فیصلے میں کئی سال لگ سکتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: مسلمان خواتین کو حجاب پہننے پر ملازمت سے نکالا جا سکتا ہے، یورپی عدالت کا فیصلہ

کینیڈ ا کا حقوق و آزادیوں کا منشور، جسے سابق وزیر اعظم پیری ٹروڈو نے متعارف کروایا تھا، ملک کے تمام شہریوں کو یکساں حقوق فراہم کرتا ہے۔

نیشنل کونسل آف کینیڈین مسلمز کے مطابق کینیڈا میں رہنے والے مسلمانوں کو نائن الیون کے بعد سے سخت مخالفت کا سامنا ہے۔ مسلمانوں پر کئی بھیانک حملے ہوئے۔ 2017ء میں تو کیوبیک سٹی میں ایک شخص نے ایک مسجد میں گھس کر چھ نمازیوں کو شہید اور 19 کو زخمی کر دیا۔

حال ہی میں صوبہ اونٹاریو کے شہر لندن میں ایک شخص نے اپنی گاڑی ایک مسلمان خاندان پر چڑھا دی جس میں چار افراد جان سے گئے اور صرف ایک 9 سال کا بچہ ہی زندہ بچ پایا۔

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے