افغانستان میں طالبان کی واپسی کے بعد ملک سے فرار ہو کر البانیہ پہنچنے والی خواتین نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ افغان خواتین کی حالت زار پر توجہ دے کہ جو اب بھی صنفی طور پر امتیازی ماحول کا نشانہ بن رہی ہیں۔
تقریباً 550 افغان البانیہ کے ساحلی شہر گولم میں مقیم ہیں جو دارالحکومت تیرانا سے 50 کلومیٹرز کے فاصلے پر ہے۔ دو ہفتوں سے یہ خواتین افغانستان میں خراب ہوتی ہوئی صورت حال سے آگاہ کرنے کے لیے مضامین لکھ رہی ہیں، سوشل میڈیا پر پیغامات پیش کر رہی ہیں اور غیر ملکی اداروں اور انجمنوں سے رابطے کر رہی ہیں۔
48 سالہ مسعود فیضی ایک گائناکولوجسٹ ہیں جو کابل کے ملالئی میٹرنٹی ہسپتال میں ریسرچ ڈائریکٹر تھیں، ان کا کہنا ہے کہ دنیا کو ابھی اسی وقت افغان خواتین کی حالتِ زار پر توجہ دینا ہوگی جو بے روزگار ہے، گھروں میں تنہا ہے اور اس کا مستقبل تاریک ہے، اگر آج ایسا نہیں کیا گیا تو کل بہت دیر ہو جائے گی۔
یہ بھی پڑھیں: افغانستان: خواتین کی جبری شادیوں پر پابندی لیکن تعلیم و روزگار بدستور معطل
ان کا کہنا تھا کہ میں نے ان سے رابطے میں موجود خواتین نے بتایا ہے کہ افغانستان میں اب ان کی زندگی ناقابل برداشت ہو چکی ہے۔
شمیل زرعی افغان ویمنز نیٹ ورک کی ایک رکن ہیں جن کا کہنا ہے کہ البانیہ میں شعور اجاگر کرنے کی مہم چلائی جا رہی ہے۔ طالبان کی آمد کے بعد افغانستان میں لڑکیوں کے تعلیمی ادارے بند ہیں اور خواتین جامعات میں کام کرنے یا تعلیم حاصل کرنے سے محروم ہیں۔
15 سالہ ستارہ گلزاری بتاتی ہیں کہ وہ ہرات، افغانستان میں جس اسکول میں پڑھتی تھیں وہ طالبان کی جانب سے بند کیا جا چکا ہے۔ انہوں نے امریکی حکومت سے مطالبہ کیا کہ ان کے خاندان کے لیے ویزا کے عمل میں تیزی لائی جائے اور کہا کہ ان کی والدہ سخت بیمار ہیں البانیہ میں گزشتہ ایک ماہ سے ان کا علاج نہیں ہو پا رہا۔ مناسب خوراک نہ ہونے اور ادویات دستیاب ملنے کی وجہ سے وہ مزید بیمار پڑتی جا رہی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: نیشنل جیوگرافک میگزین کی زینت بننے والی افغان گرل اٹلی ہجرت کر گئی
البانیہ 2,250 افغان مہاجرین کو پناہ دے چکا ہے کہ جو مختلف ہوٹلوں اور ریزورٹس میں مقیم ہیں۔ انہیں کہا گیا ہے کہ وہ ایک سال تک یہاں رہ سکتے ہیں جب تک کہ امریکی حکام ان کے لیے خصوصی امیگریشن ویزا نہ جا ری کرے۔
البانیہ تمام افغان مہاجرین کے لیے طبّی سہولیات پیش کر چکا ہے لیکن مقامی ڈاکٹر اکثر و بیشتر پیسے طلب کرتے ہیں کیونکہ افغان میڈیکل انشورنس کے اہل نہیں ہیں۔
افغان ویمن نیٹ ورک نے بین الاقوامی برادری سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ افغان عوام بالخصوص خواتین پر مظالم کے خلاف آواز بلند کرے اور ایسا میکانزم تیار کرے کہ جس سے افغانستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی نگرانی ہو سکے۔
Pingback: افغانستان میں بحران، پاکستان اور برطانیہ کا اجتماعی اقدامات اٹھانے کا مطالبہ - دی بلائنڈ سائڈ