خواتین دنیا کی آبادی کا تقریباً نصف ہیں لیکن کُل عالمی آمدنی کا ان کا حصہ صرف ایک تہائی ہے اور گزشتہ تین دہائیوں میں بھی اس صورت حال میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی۔
90ء کی دہائی کے اوائل میں دنیا بھر میں حاصل شدہ کُل آمدنی کا تقریباً 30 فیصد خواتین کے پاس تھا لیکن آج 30 سال گزر جانے کے باوجود یہ شرح 35 فیصد سے کم ہے۔ افسوس کی بات ہے کہ اس وقت کئی ملکوں میں کالج سطح کی تعلیم میں خواتین تعداد میں مردوں کو پیچھے چھوڑ چکی ہیں لیکن پھر بھی ان کی معاشی حالت میں تبدیلی نہیں آ رہی۔
اپنی نوعیت کی پہلی ‘عالمی عدم مساوات 2022ء رپورٹ‘ کے مطابق ایک مساوی دنیا میں 50 فیصد خواتین کو ملنی چاہیے لیکن 30 سالوں میں تمام تر کوششوں کے باوجود اس کے حصول کی رفتار سست رہی ہیں۔ چند ممالک میں حالات مختلف نظر آئے ہیں کہ جہاں مثبت پیش رفت ہوئی ہے لیکن خواتین کے آمدنی کے معاملے میں بحیثیت مجموعی صورت حال میں کچھ خاص تبدیلی نظر نہیں آئی۔
یہ بھی پڑھیں: خواتین ڈاکٹر مردوں سے کہیں کم کماتی ہیں، لیکن کیوں؟
دنیا میں افرادی قوت صنفی طور پر اتنی عدم مساوات سے دوچار کیوں ہے؟ اس کی وجہ ہے جنسیت (sexism) جو خواتین کو مخصوص صنعتوں میں آگے بڑھنے سے روکتی ہے، یا چند شعبوں کے دروازے اُن پر بند رکھتی ہے۔ خواتین زیادہ تر جو کام کرتی ہیں وہ گھریلو نوعیت کے ہیں جن میں بچوں اور بزرگوں کی دیکھ بھال بھی شامل ہے اور یہ ایسا کام ہے جس سے انہیں کوئی آمدنی حاصل نہیں ہوتی۔
اس لیے خواتین مرد سے زیادہ پڑھی لکھی ہونے کے باوجود آمدنی کے معاملے میں پیچھے ہیں۔ رپورٹ نے خاص طور پر مختلف کاموں کی مختلف قدر اور صنفی بنیادوں پر کیریئر کے دستیاب محدود مواقع کا حوالہ دیا ہے۔ دونوں صورتوں میں خواتین کی آمدنی کے ذرائع تک رسائی کا مسئلہ ہے۔ مخصوص صنعتوں میں خواتین کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے اور اگر چند خواتین پہنچ بھی جائیں تو صلاحیتوں کی بنیاد پر آگے بڑھنے سے انہیں روکا جاتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: اکیسویں صدی میں بھی گھریلو ذمہ داریوں کا بوجھ صرف عورت کے کاندھوں پر
مثلاً گاڑیاں بنانے کی صنعت ہی کو لے لیں، جہاں بنیادی نوعیت کے کاموں میں بھی خواتین کی تعداد بہت کم ہے۔ 2016ء کی ایک رپورٹ نے پایا تھا کہ یہ تعداد محض 26 فیصد ہے۔ پھر ٹیکنالوجی کا شعبہ کہ جہاں خواتین کی بنیادی نوعیت کی ملازمتوں پر ہی شرح 37 فیصد ہے۔
دوسری جانب صحت عامہ اور ادویات سازی کی صنعتیں ہیں جہاں خواتین حد سے زیادہ (59 فیصد) ہیں، لیکن وہاں بھی ترقی پا کر بلند عہدوں پر پہنچنے میں ان کی شرح کم ہے۔
جواب دیں