اکیسویں صدی میں بھی گھریلو ذمہ داریوں کا بوجھ صرف عورت کے کاندھوں پر

آسٹریلیا میں خواتین مردوں سے 21 گھنٹے زیادہ گھریلو ذمہ داریاں نبھاتی ہیں

اب عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ وہ زمانے گزر گئے جب گھر کے کاموں کی ذمہ داری محض عورتوں کے کاندھوں پر ہوتی تھی، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اب بھی خواتین گھریلو کام مردوں سے کہیں زیادہ کرتی ہیں بلکہ ایک تحقیق کے مطابق تو ایک ہفتے میں خواتین مردوں سے 21 گھنٹے زیادہ گھریلو ذمہ داریاں نبھاتی ہیں۔

یونیورسٹی آف میلبرن آسٹریلیا کے سالانہ سروے نے انکشاف کیا ہے کہ گھریلو ذمہ داریوں کا بوجھ بھی غیر یکساں طور پر خواتین کے کاندھوں پر ہے، جس سے ان کے کام کے دورانیہ کی شرح دو گنی ہو جاتی ہے۔ یہ بھی پتہ چلا ہے کہ خواتین اس کی وجہ سے نفسیاتی و ذہنی دباؤ کا زیادہ شکار رہتی ہیں۔

یہ تحقیق 2019ء میں 9,500 گھرانوں کے 17,500 افراد کے انٹرویو پر مبنی ہے، جس میں پایا گیا کہ خواتین مردوں سے کہیں زیادہ ایسے کام کرتی ہیں جس کی انہیں کوئی ادائیگی نہیں ہوتی اور ان جوڑوں میں تو یہ شرح بہت ہی زیادہ ہے جن کے چھوٹے بچے ہیں۔

گھریلو ذمہ داریاں وہ سب سے بڑا کام ہیں جن کی کوئی ادائیگی نہیں ہوتی، یعنی یہ مفت کی نوکری ہے۔

یہ بھی پڑھیں: بیویوں کی تنخواہیں شوہروں جتنی نہیں، نیا عالمی سروے

تحقیق میں یہ بھی پایا گیا ہے کہ خواتین مردوں کے مقابلے میں وقت کی کمی کی وجہ سے دباؤ کا شکار بھی زیادہ رہتی ہیں۔ 38 فیصد خواتین کا کہنا تھا کہ وہ بسا اوقات یا تقریباً ہر وقت ہی وقت کی کمی کی وجہ سے دباؤ میں رہتی ہیں اور یہ 2001ء سے اب تک لگ بھگ یکساں ہی ہے۔

گو کہ سروے میں یہ ضرور پتہ چلا ہے کہ بلا معاوضہ کاموں میں مرد اور خواتین کا صنفی فرق کچھ کم ہوا ہے، 2001ء میں خواتین مردوں کے مقابلے میں ہر ہفتے 28.8 گھنٹے زیادہ گھریلو ذمہ داریوں پر صرف کرتی تھیں، لیکن 2019ء میں یہ گھٹ کر 20.9 گھنٹے رہ گئے ہیں۔

محققین سمجھتے ہیں کہ انہیں لگتا ہے کہ مرد اب یہ ذمہ داریاں سنبھالنے لگے ہیں کیونکہ 2002ء میں 24.7 گھنٹے کے مقابلے میں 2019ء میں ان کے کام کی شرح 27.8 گھنٹے تک آ گئی ہے۔ لیکن یہ اب بھی عورتوں کے مقابلے میں کہیں کم ہے جو 2019ء کے مطابق 48.7 گھنٹے گھریلو ذمہ داریاں سنبھالتی ہیں جبکہ 2002ء میں تو یہ شرح 53.5 گھنٹے تھی۔

یہ بھی پڑھیں: ملازمت پیشہ خواتین کو گھریلو تشدد کا زیادہ سامنا کرنا پڑتا ہے

رپورٹ میں ذہنی صحت پر بھی ایک نظر ڈالی گئی ہے اور پایا گیا ہے کہ زیادہ یا بہت زیادہ نفسیاتی دباؤ کے خطرے سے دو چار بالغان کی شرح میں 2007ء سے 2019ء کے دوران تقریباً 30 فیصد اضافہ ہوا ہے اور خواتین بالخصوص اس زد میں ہیں۔

اعداد و شمار نے ظاہر کیا ہے کہ 2019ء میں تقریباً ایک چوتھائی (23 فیصد) خواتین اور تقریباً ہر پانچواں مرد (19 فیصد) نفسیاتی دباؤ کا شکار ہے۔ یہ 2007ء کے مقابلے میں تقریباً ایک تہائی زیادہ تعداد ہے، جب خواتین اور مردوں نے بالترتیب 18 اور 15 فیصد نفسیاتی دباؤ ظاہر کیا تھا۔

ذہنی دباؤ نوجوان جوڑوں کو پہلے سے کہیں زیادہ متاثر کر رہا ہے کیونکہ 15 سے 24 سال کے 30 فیصد افراد نفسیاتی دباؤ کا سامنا کر رہے ہیں جبکہ 2007ء میں یہ شرح 21 فیصد تھی۔

یہ بھی پڑھیں: گھر، صنفی عدم مساوات کا اصل گڑھ

گو کہ یہ تحقیق آسٹریلیا کے حوالے سے ہے لیکن گھریلو کام اور بلا معاوضہ مزدوری میں عدم مساوات دنیا بھر کا مسئلہ ہے۔ حال ہی میں برطانیہ میں بھی ایسی ہی ایک تحقیق ہوئی، جس میں انکشاف ہوا کہ گھر کا بیشتر کام خواتین سنبھالتی ہیں اور 54 فیصد نے تو یہ کہا تمام تر گھریلو کام وہی کرتی ہیں۔ اس سروے میں شامل 17 فیصد مردوں نے تسلیم کیا تھا کہ ان کے گھر پر زیادہ تر کام خواتین ہی انجام دیتی ہیں۔

اس لیے یہ امر حیران کن نہیں کہ تقریباً ایک چوتھائی 22 فیصد جھگڑے گھریلو کام میں ہاتھ بٹانے پر ہوتے ہیں بلکہ یہ جوڑوں میں بحث کی بنیادی وجہ ہے۔

اس تحقیق میں بھی آمدنی کے معاملے میں بھی خواتین پیچھے نظر آئی ہیں، جس کے مطابق مردوں کے مقابلے میں برطانیہ کی کام کی عمر رکھنے والی خواتین اوسطاً 40 فیصد کم کماتی ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے