آسٹریلیا کی اولمپک چیمپیئن تیراک میڈلین گرووز نے انکشاف کیا ہے کہ نو عمری میں انہیں ایک ایسے شخص کے جنسی استحصال کا نشانہ بننا پڑا، جو اب بھی کھیلوں کی صنعت سے وابستہ ہے۔
اپنے ایک خصوصی انٹرویو میں گرووز نے وہ حالات بیان کیے ہیں جو ان کے الفاظ میں "زن بیزارانہ” اور "جنسیت پر مبنی ماحول” کے حامل تھے۔ انہوں نے آسٹریلیا کے دو معروف ترین سوئمنگ کوچز کو ایسی حرکتوں کا مرتکب قرار دیا اور انکشاف کیا کہ جب وہ 13 سال کی تھیں تو ایک بالغ مرد کی جانب سے ان کے ساتھ دست درازی کی گئی تھی، البتہ انہوں نے نام ظاہر نہیں کیا۔
البتہ انہوں نے اپنے سابق کوچ مائیکل پالفری کے خلاف بات ضرور کی، جو برسبین میں تین سال تک ان کے کوچ رہے تھے جب گرووز کی عمر 12 سال تھی۔ انہوں نے بتایا کہ پالفری ان کے کھانے پینے تک کی نگرانی کرتے تھے اور ان سمیت دیگر نو عمر کھلاڑی تیراکی کے لباس میں بلکہ گیلی ہوتی تھیں تو وہ انہیں اٹھا کر ان کو تولتے تھے۔
یہ بھی پڑھیں: کھیلوں میں خواتین کی نمائندگی کیوں ضروری ہے؟
انہوں نے کہا کہ میں اس حرکت سے بچنے کے لیے چھپ جاتی تھی۔ پھر ہم کیا کھا پی رہے ہیں، اس پر بھی ان کی مستقل نگاہیں رہتی تھیں۔ جب میری عمر صرف 13 سال تھی تو ہمیں دورۂ نیوزی لینڈ میں ڈائننگ روم میں جانے تک کی اجازت نہ تھی جب تک کہ کوچ نہ آ جائیں۔ کبھی کبھی تو ہم چھپ کر پہلے سے ڈائننگ روم میں داخل ہو جاتے اور کھانے کی مختلف چیزیں چُرا کر جیبوں میں رکھ لیتے تاکہ ہمیں کوچ کے سامنے کم کھانا پڑے۔
گرووز نے مزید بتایا کہ جب وہ 15 سال کی تھیں تو انہیں ایک غیر ملکی دورے پر ایک اجنبی شخص کے نگرانی میں تنہا بھیجا گیا تھا۔ وہ دراصل آسٹریلیا کے سابق قومی یوتھ کوچ گلین برنجن کا ذکر کر رہی تھیں جنہوں نے 2010ء میں سامووا میں ہونے والی اوشینیا سوئمنگ چیمپیئن شپس میں ان کی کوچنگ کی تھی۔ انہوں نے بتایا کہ جب میں پورے لباس مین ہوتی تو وہ مجھ سے بات تک نہ کرتے، لیکن جیسے ہی تیراکی کے لباس میں آتی، وہ مجھے الگ تھلگ لے جا کر معیوب قسم کی گفتگو کرتے اور بہت قریب ہو کر گھورتے اور دیکھتے رہتے تھے۔ وہ ہاتھوں کو چھوتے، کمر کو ہاتھ لگاتے اور کبھی کبھی تو اپنے ہاتھوں سے میرے تیراکی کے لباس کو ٹھیک کرتے۔
یہ بھی پڑھیں: ہینڈ بال، خواتین کے مختصر لباس پہننے کی شرط خاموشی سے ختم کر دی گئی
2017ء میں جب آسٹریلین سوئمرز ایسوسی ایشن نے ہنگری میں ہونے والی فینا ورلڈ چیمپیئن شپس کے بعد آزادانہ تحقیق کا اعلان کیا تھا تو گرووز نے اُس وقت برنجن کی شکایت کی تھی۔ گو کہ وہ تمام الزامات کو غلط قرار دیتے رہے لیکن پھر سوئمنگ آسٹریلیا نے ان کے معاہدے کی تجدید نہیں کی۔
اولمپکس میں دو مرتبہ تمغے جیتنے والی گرووز نے جون میں ٹوکیو اولمپکس کے ٹرائلز سے اپنا نام واپس لیا اور سوشل میڈیا پر کئی ایسی پوسٹس کی جن میں ان کا دعویٰ تھا کہ وہ اب ایسے مردوں اور ان کے چمچوں کے پردے فاش کریں گی۔
تم اب نو عمر لڑکیوں کا استحصال نہیں کر سکتے، ان کو جسمانی طور پر شرمندہ کر کے یا طبّی طور پر ان کا استعمال کرتے ہوئے یہ توقع نہیں رکھ سکتے کہ وہ اس کےبعد تمہاری نمائندگی کریں گی اور تمہارے سالانہ بونس کی وجہ بنیں گی۔ اب وقت گزر چکا!
Let this be a lesson to all misogynistic perverts in sport and their boot lickers – You can no longer exploit young women and girls, body shame or medically gaslight them and then expect them to represent you so you can earn your annual bonus. Time’s UP https://t.co/XMQCRPjNzK
— Maddie Groves (@MaddieGroves_) June 9, 2021
سوئمنگ آسٹریلیا نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ اس نے گرووز کی شکایات پر سنجیدگی سے غور کرنے کے لیے محققین کا ایک پینل تشکیل دیا ہے تاکہ کھلاڑیوں کی شکایات پر غور کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ گرووز کے لگائے گئے الزامات سے کوئنزلینڈ پولیس کو آگاہ کر دیا گیا ہے۔
جواب دیں