آسٹریلیا، ہر دوسری خاتون کو جنسی ہراسگی کا سامنا

‏50 لاکھ خواتین اور 22 لاکھ مردوں کو جنسی ہراسگی کے کم از کم ایک واقعے کا تجربہ ضرور ہوا ہے

آسٹریلیا میں ہر دو میں سے ایک خاتون کو اپنی زندگی میں کم از کم ایک مرتبہ جنسی ہراسگی کا سامنا کرنا پڑا ہے، جس میں ان کے جسم یا جنسی زندگی پر کوئی نامناسب تبصرہ سب سے عام ہے۔

آسٹریلیا کے ادارۂ شماریات نے پایا ہے کہ 50 لاکھ خواتین (53 فیصد) اور 22 لاکھ مردوں کو جنسی ہراسگی کے کم از کم ایک واقعے کا تجربہ ضرور ہوا ہے۔

یہ پریشان کو تجزیہ دو ایسی رپورٹوں کے بعد سامنے آیا ہے جو آسٹریلیا میں حال ہی میں جنسی ہراسگی کے حوالے سے سامنے آئی ہیں۔ پچھلے ہفتے جنسی امتیاز کے خلاف آسٹریلیا کی کمشنر کیٹ جینکنس نے ایک بھیانک رپورٹ پیش کی تھی، جس میں انکشاف ہوا تھا کہ پارلیمانی عملے کے ہر تین میں سے ایک رکن کو جنسی ہراسگی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: خواتین کا عالمی دن: 83 فیصد خواتین ہراسگی سے بچنے کے لیے اپنی نقل و حرکت محدود کرتی ہیں

اس کے علاوہ انہی کی قومی تحقیق برائے جنسی ہراسگی 2020ء کی سفارشات کو بھی محض جزوی طور پر لاگو کیا گیا ہے۔ ان میں سے اہم ترین سفارش یہ تھی کہ کام کی جگہ پر جنسی ہراسگی کے واقعات کو روکنے کے لیے انتظامات کو مالک کی ذمہ داری قرار دیا جائے تاکہ اس کا نشانہ بننے والے افراد کی شکایات کا انتظار نہ کرنا پڑے، لیکن اس سفارش پر عمل درآمد نہیں کیا گیا۔

بہرحال، ادارۂ شماریات کے جائزے نے پایا ہے کہ ملک کی ایک تہائی خواتین ایسی ہیں جنہیں اپنے جسم یا جنسی زندگی کے حوالے سے نامناسب تبصروں کا سامنا کرنا پڑتا ہے جبکہ 30 فیصد ایسی ہیں جنہیں کسی نے نامناسب انداز میں چھوا۔

یہ رپورٹ 2016ء کے پرسنل سیفٹی سروے کے لیے جمع کردہ ڈیٹا سے اخذ کی گئی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان، خواتین کے خلاف بڑھتے آن لائن جرائم اور سرکاری سرد مہری

اس سے پہلے آخری بار یہ ڈیٹا 2012ء میں جمع کیا گیا تھا اور ان دونوں سالوں یعنی 2012ء اور 2016ء کے اعداد و شمار کا تقابل کریں تو مرد اور خواتین دونوں کے لیے جنسی ہراسگی میں اضافہ ہوا ہے۔

سروے کے مطابق جنسی ہراسگی کا نشانہ بننے سے مراد کسی بھی ایسے رویے کا سامنا کرنا ہے جو نامناسب اور غیر مطلوب ہو، جس کی وجہ سے فرد کو حرکت کی جنسی نوعیت کی وجہ سے ناگواری کا احساس ہوا۔ اس میں نامناسب فون رابطے، میسیجز، ای میلز یا سوشل میڈیا پوسٹس، فحش حرکت، غیر موزوں تبصرے، چھونا، جنسی نوعیت کی تصویر یا وڈیو شیئر کرنا یا جنسی نوعیت کا ایسا مواد پیش کرنا جو کوئی شخص نہیں دیکھنا چاہتا۔

یہ بھی پڑھیں: سوشل میڈیا نفرت انگیزی اور زن بیزاری کا گڑھ، انسٹاگرام کی حالت بد ترین

دوسری جانب جنسی حملے سے مراد جنسی نوعیت کا کوئی ایسا عمل ہے جو جسمانی طاقت کا استعمال کر کے، ڈر خوف یا جبر کے ساتھ کیا جائے۔ اس میں ایسا کرنے کی کوشش کرنا بھی شامل ہے۔

اس تجزیے میں ظاہر ہوا ہے کہ مالی دباؤ یا غیر مطمئن زندگی کا جنسی ہراسگی سے تعلق نظر آتا ہے۔ ضروریات زندگی کی بنیادی چیزیں حاصل کرنے میں بھی دشواری کا سامنا کرنے والوں کو جنسی ہراسگی کو دو گنا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس کے علاوہ جنسی ہراسگی کا سامنا کرنے والوں کو جنسی حملے کا خطرہ بھی زیادہ ہوتا ہے۔ تجزیے کے مطابق 30 فیصد خواتین اور 14 فیصد مرد ہیں جنہوں نے جنسی ہراسگی کا سامنا کیا اور انہیں جنسی حملے کا تجربہ بھی ہوا۔ اس کے مقابلے میں 2.7 فیصد خواتین اور 1 فیصد مرد ہی ایسے ہیں جنہیں جنسی ہراسگی کا تو سامنا نہیں کرنا پڑا، لیکن ان پر جنسی حملہ ضرور ہوا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے