طالبان کا اعلان، امریکا کا خیر مقدم لیکن ماہرین کی جانب سے اعتراضات

طالبان نے جو حقوق دینے کا اعلان کیا ہے، وہ شریعت کے تحت خواتین کو پہلے سے حاصل تھے

طالبان کی جانب سے خواتین کے حقوق کے حوالے سے جاری کردہ خصوصی فرمان کا امریکا نے خیر مقدم کیا ہے اور کہا ہے کہ حقوقِ نسواں کے حوالے سے مزید اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔

امریکی خصوصی نمائندہ برائے افغانستان تھامس ویسٹ نے ایک ٹوئٹ میں کہا ہے کہ تعلیمی اداروں، کام کی جگہوں، سیاست اور ذرائع ابلاغ سمیت افغان معاشرے میں ہر جگہ خواتین کے حقوق کو یقینی بنانے کے لیے مزید اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔

کیونکہ اس فرمان میں خواتین کی تعلیم یا روزگار کا کوئی ذکر نہیں تھا، یہی وجہ ہے کہ افغان خواتین اور ماہرین نے اسے مسترد کر دیا ہے، جن کا کہنا ہے کہ یہ فرمان ثابت کرتا ہے کہ طالبان گزشتہ کئی ماہ سے گھروں تک محدود لاکھوں افغان خواتین کی بنیادی آزادی میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتے۔

اس فرمان کے تحت شادی اور وراثت کے قوانین پر طے کیے گئے ہیں جس کے مطابق شادی کے معاملات میں خواتین پر کوئی جبر نہیں کیا جائے گا اور بیوہ کو اپنے شوہر کی وراثت میں حق دیا جائے گا۔ فرمان میں کہا گیا کہ

” عورت کسی کی ملکیت نہیں، بلکہ ایک با وقار اور آزاد انسان ہے؛ صلح کے بدلے میں ۔۔ یا کسی دشمنی کے خاتمے کے لیے کوئی کسی کو کوئی عورت نہیں دے سکتا اور نہ اس کا تبادلہ کر سکتا ہے۔”

طالبان خواتین کے حقوق کے معاملے میں عالمی برادری کے سخت دباؤ میں ہیں، جس کی وجہ سے افغانستان کی زیادہ تر امداد بھی رکی ہوئی ہے۔ طالبان نے اپنے اقتدار کے ابتدائی چار ماہ کے دوران لڑکیوں کی تعلیم کو محدود کرنے کے لیے اقدامات اٹھائے اور خواتین کے روزگار کے بیشتر مواقع پر بھی پابندی لگائی ہے اور یوں افغان خواتین ان حقوق سے محروم ہوتی نظر آ رہی ہیں، جن کے لیے گزشتہ دو دہائیوں میں انہوں نے سخت جدوجہد کی ہے۔

اس تازہ فرمان پر افغان خواتین کا کہنا ہے کہ اس سے ان کی زندگیوں میں کوئی نمایاں تبدیلی نہیں آئے گی کیونکہ طالبان نے جو حقوق انہیں دینے کا اعلان کیا ہے، وہ شریعت کے تحت انہیں پہلے ہی حاصل تھے۔ طالبان نے جب اقتدار سنبھالا تو عہد کیا تھا کہ وہ خواتین جو شرعی قوانین کے تحت تمام حقوق دیں گے، لیکن یہ اب تک واضح نہیں کہ اس سے مراد کہیں شریعت کے حوالے سے ان کا تنگ نظریہ تو نہیں؟ اپنے گزشتہ دورِ اقتدار میں 1996ء سے 2001ء کے دوران انہوں نے خواتین پر سخت پابندیاں لگائی تھیں، یہاں تک کہ خواتین محرم کے بغیر گھر سے بھی نہیں نکل سکتی تھیں اور لڑکیوں کے تعلیمی ادارے بھی مکمل طور پر بند کر دیے گئے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: افغانستان: خواتین کی جبری شادیوں پر پابندی لیکن تعلیم و روزگار بدستور معطل

کابل کی ایک 20 سالہ یونیورسٹی طالبہ مژدہ (فرضی نام) کا کہنا ہے کہ اس فرمان کا ان کے اسکول، کالج یا یونیورسٹی جانے کے حق سے کوئی تعلق نہیں۔ اپنے مستقبل کے حوالے سے کوئی امید نہیں ہے۔ طالبان کے برسرِ اقتدار آنے کے بعد سے انہیں وہ پُر سکون نہیں ہیں اور اس اعلان کے بعد بھی کوئی تشفی نہیں ملی۔ جب تک کوئی حقیقی تبدیلی نہیں آئے گی، وہ گھر پر رہنے کو ہی ترجیح دیں گی۔ وہ بھی یہی چاہتے ہیں کہ ہم گھروں پر ہی رہیں اور اسکول یا جامعات یا کام کے لیے باہر نہ نکلیں۔ اس حوالے سے خواتین محض عالمی برادری سے مطالبات ہی کر سکتی ہیں۔

یہ فرمان ایک ایسے موقع جاری ہوا ہے جب افغانستان سخت معاشی بحران سے دو چار ہے اور ملک میں قحط سالی کا خطرہ ہے۔ لیکن ایسا نہیں لگتا کہ ایسے فرمان بین الاقوامی خدشات کو گھٹائیں گے کیونکہ افغان خواتین اب بھی تعلیم اور روزگار کے مواقع سے محروم ہیں، یہاں تک کہ عوامی مقامات پر بھی نہیں جا سکتیں۔

ہیومن رائٹس واچ میں خواتین کے حقوق کی ایسوسی ایٹ ڈائریکٹر ہیدر بار نے کہا ہے کہ

گزشتہ ساڑھے تین ماہ میں یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ بین الاقوامی برادری کے لیے افغانستان میں قدم بڑھانے میں سنجیدہ رکاوٹ لڑکیوں کی تعلیم کا معاملہ ہے۔

طالبان رہنماؤں نے حالیہ چند ماہ میں اپنا اعتدال پسند چہرہ پیش کرنے کی کوشش کی ہے، جس میں لڑکیوں کی بنیادی تعلیم کی اجازت دینے اور ثانوی تعلیم کا وعدہ کرنے جیسے اقدامات شامل ہیں، لیکن خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والوں کا کہنا ہے کہ لڑکیوں کو کیا کردار ادا کرنا چاہیے؟ اس حوالے سے طالبان کے 1996ء سے 2001ء تک کے اور موجودہ رویّے میں کوئی فرق نہیں۔ اس لیے حالیہ بیان کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ یہ بیان ظاہر کرتا ہے کہ وہ معاشرے میں خواتین کا کون سا کردار دیکھنا چاہتے ہیں۔ ایک ایسے وقت میں جب لاکھوں لڑکیوں کی تعلیم تک رسائی بند ہے، ایسا اعلان درحقیقت ان کی توہین کے مترادف ہے۔

طالبان نے حکومت میں آنے کے بعد نہ صرف امورِ خواتین کی وزارت کا خاتمہ کیا بلکہ خواتین پر تشدد کے خاتمے کے قانون کو بھی کالعدم کر دیا جس پر 2009ء میں دستخط کیے گئے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: ایشیا: خواتین پر تشدد کا بڑھتا ہوا رجحان تمام حدیں پار کر گیا

کابل کی ایک سابق اسکول ٹیچر 62 سالہ فریحہ صدیقی کہتی ہیں کہ اس فرمان کا ملک کے بیشتر علاقوں میں نفاذ ناممکن ہے، تعلیم اس کا اطلاق محض دارالحکومت اور ملک کے چند حصوں میں کر سکتے ہیں، لیکن ملک کے بیشتر علاقوں کی اپنی روایات اور رواج ہیں، وہ اس فرمان کو تسلیم نہیں کریں گے۔

گو کہ ملک بھر میں 15 سال سے کم عمر کی بچیوں کی شادی پر پابندی ہے ، لیکن ملک میں ایسی شادیاں عام ہیں، خاص طور پر دیہی علاقوں میں۔ اگست میں طالبان کی آمد کے بعد جب معاشی حالات خراب ہونا شروع ہوئے تو ایسی شادیوں میں مزید اضافہ ہوا ہے۔

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے