پاکستان، خواتین کے خلاف بڑھتے آن لائن جرائم اور سرکاری سرد مہری

پاکستان میں انٹرنیٹ صارفین کی تعداد میں اضافے کے ساتھ ساتھ آن لائن دنیا کے خطرات بھی بڑھتے جا رہے ہیں

پاکستان میں انٹرنیٹ صارفین کی تعداد 6.13 کروڑ ہے، جس میں گزشتہ ایک سال کے دوران تقریباً 1.1 کروڑ صارفین کا اضافہ ہوا ہے۔ رواں سال کے آغاز پر پاکستان میں انٹرنیٹ کا نفوذ تقریباً 27.5 فیصد تھا۔ صرف سوشل میڈیا صارفین ہی کو دیکھیں تو ملک میں صرف 2020ء میں ہی اس میں 90 لاکھ کا اضافہ دیکھنے میں آیا ہے، جس کے ساتھ یہ تعداد 4.6 کروڑ تک جا پہنچی ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ آن لائن دنیا کے خطرات بھی بڑھتے جا رہے ہیں۔

ان میں شناخت کی چوری ـ(identity theft) سے لے کر آن لائن ہراسگی تک بہت سے جرائم شامل ہیں اور ان کا گڑھ ہے فیس بک۔ نفرت انگیزی، زن بیزاری، جنسیت (sexism)، نسل پرستی اور جعلی مواد پر مبنی تقریباً سارا ہی وائرل مواد فیس بک سے آتا ہے۔ اس کی وجہ ایک تو فیس بک پر مواد بنانا اور شہرت اور توجہ حاصل کرنا آسان ہے۔ بد قسمتی سے خواتین کے لیے آن لائن ہراسگی اور ان کے ڈیٹا کے غلط استعمال کے حوالے سے بھی فیس بک پیش پیش ہے۔

اگر آپ کی فیس بک پر، یا کسی دوسری جگہ پر، موجود تصاویر کا غلط استعمال کرے، آپ کی ساکھ کو نقصان پہنچائے، آپ کو بدنام کرے یا دھمکائے تو کیا ہوگا؟

یہ بھی پڑھیں: لڑکیوں کا آف لائن اور آن لائن تعاقب، نارمل سمجھا جانے والا گھٹیا رویّہ

یہی وجہ ہے کہ ملک میں خواتین کو پاکستان الیکٹرانک کرائمز ایکٹ (PECA) ضرور پڑھنا چاہیے۔ اس ایکٹ میں آن لائن پیچھا کرنے، آن لائن فراڈ، جعل سازی، شناخت کی چوری، نفرت انگیزی اور بہت سے جرائم شامل ہیں لیکن سب سے اہم حصہ ہے شق 20 اور 21، جو ملک میں ڈجیٹل میڈیا کا استعمال کرنے والی ہر خواتین کو لازماً پڑھنا چاہیے کیونکہ اس کا تعلق جنسی استحصال سے ہے۔

ایف آئی اے میں جہاں اس قانون کے اطلاق اور شکایتوں کو سنجیدہ لینے کا مسئلہ ہے، وہیں یہ بھی ہے کہ کروڑوں انٹرنیٹ صارفین کے لیے سائبر کرائم ونگ میں صرف 500 ملازمین موجود ہیں۔ ان میں سے بھی 400 گزشتہ سال یعنی 2020ء میں شامل کیے گئے ہیں۔ آن لائن ہراسگی کے بڑھتے ہوئے واقعات سے نمٹنے کے لیے یہ وسائل ناکافی ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: ‏ہمارا انٹرنیٹ، آن لائن سیفٹی کے حوالے سے خصوصی نصاب کا اجراء

اس کے علاوہ شکایت پر رد عمل دکھانے میں سستی بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ ایک وکیل ارم شجاع کے مطابق صرف ویریفکیشن کے لیے دو ہفتے مانگے جاتے ہیں حالانکہ یہ 5 منٹ کا کام ہے۔ پھر عملہ زیادہ تر مردوں پر مشتمل ہے جس کی وجہ سے خواتین ایف آئی اے دفتر جانا نہیں چاہتیں۔ اس لیے جہاں حقوق اور قوانین سے آگاہ ہونے کا مسئلہ ہے، وہیں یہ مسائل بھی اپنی جگہ موجود ہیں۔

ایف آئی اے میں مردوں کی اکثریت اور خواتین کے مقدمات کے حوالے سے ان کا ٹریک ریکارڈ ظاہر کرتا ہے کہ وہ صنفی ہراسگی کے معاملات پر گرفت نہیں رکھتے۔ اس لیے اس حوالے سے سنجیدہ کوششوں کی ضرورت ہے، ورنہ مستقبلِ کا منظرنامہ بہت بھیانک ہوگا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے