عراق میں ایک عدالت ایک 12 سالہ بچی کی 25 سالہ شخص سے شادی کو قانونی حیثیت دینے کے معاملے کی سماعت کر رہی ہے، جس نے ملک میں خدشات کی نئی لہر کو جنم دے دیا ہے۔
بغداد کے ضلع کاظمیہ میں واقع عدالت نے گزشتہ ہفتے سماعت ملتوی کر دی تھی جب باہر مظاہرین کا احتجاج جاری تھا جو نعرے لگا رہے تھے اور ان کے ہاتھوں میں کتبے تھے جن پر لکھا تھا "بچوں کی شادی ایک جرم ہے” اور "بچوں کی شادی سے انکار” ۔
مظاہرے میں شریک ایک فرد کا کہنا تھا کہ بچوں کو عمر گھروں پر بیٹھ کر کارٹون دیکھنے کی ہے، ان کی شادیاں نہیں کروانی چاہئیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم آج اس عمل کی مذمت کے لیے یہاں آئے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: عراق کی گم شدہ خواتین
یہ معاملہ پہلی بار تب منظرِ عام پر آیا تھا جب بچی کی ماں کو ایک وڈیو میں حکام سے مطالبہ کرتے دکھایا گیا تھا کہ وہ اس کی بچی کو بچا لیں۔ ماں نے مقامی میڈیا کو بتایا کہ اس کی 12 سالہ بیٹی کے ساتھ ریپ ہوا تھا اور اس کی شادی زبردستی سوتیلے باپ کے بھائی کے ساتھ کی گئی ہے۔
البتہ خواتین پر تشدد کے معاملات دیکھنے والی وزارت داخلہ نے لڑکی، اس کے والد اور شوہر سے ملاقات کے بعد گزشتہ ہفتے ایک بیان میں کہا تھا کہ اسے یقین دلایا گیا ہے کہ لڑکی کے ساتھ جبراً شادی نہیں کی گئی۔
عراق میں خواتین اور بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی ہالہ کہتی ہیں کہ "چاہے کوئی بھی صورت ہو، ایک 12 سالہ بچی اور 25 سالہ شخص کی شادی قابلِ قبول نہیں ہے۔
ملک کے قوانین کے مطابق شادی کی عمر قانوناً 18 سال ہے لیکن "ہنگامی” معاملات میں اسے 15 سال تک کیا جا سکتا ہے کہ جس میں شادی کرنے والے فرد کے والد کی رضامندی شامل ہو۔
یہ بھی پڑھیں: شادی کی کم از کم عمر 21 سال کی جائے، بھارتی لڑکیوں کا مطالبہ
خواتین کے خلاف ہر قسم کے امتیاز کے خاتمے کا کنونشن (CEDAW) ایک عالمی دستاویز ہے جس کا مقصد خواتین کے حقوق کا تحفظ ہے، اس کا بھی کہنا ہے کہ 18 سال سے کم عمر کی ہر شادی جبری شادی کی ایک صورت ہے۔
لیکن قانون کی موجودگی کے باوجود عراق اور خطے کے دیگر ممالک میں، بالخصوص دیہی علاقوں میں، کم عمری کی شادیاں عام ہیں۔ غربت اور مذہبی روایات والدین کو اپنی بچیوں کی عمری میں ہی شادی پر مجبور کرتی ہیں، کیونکہ انہیں امید ہوتی ہے کہ اس سے ان کے خاندان کا بوجھ کم ہوگا یا انہیں مالی مدد ملے گی۔
حکومت کی جانب سے کروائے گئے مختلف سرویز کے مطابق 20 سے 24 سال کی عمر کی 7.2 فیصد خواتین کی شادی 15 سال کی عمر تک پہنچنے سے پہلے ہوئی تھی جبکہ 20.2 فیصد 18سال کی عمر تک پہنچنے سے پہلے بیاہ دی گئی تھیں۔
یہ بھی پڑھیں: ایران، کم عمری کی شادیوں میں اضافے کا رجحان
اس سروے میں شامل یونیسیف کا کہنا ہے کہ کم عمری کی شادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے، جو لڑکیوں کے بڑھتے قدم روکنے کے مترادف ہے اور بسا اوقات اس کا نتیجہ کم عمری میں حمل ٹھیرنے اور سماجی تنہائی کی صورت میں نکلتا ہے اور وہ تعلیم اور ہنر کے مواقع گھٹ جانے کی وجہ سے صنفی غربت کا شکار ہو جاتی ہیں۔
اس مقدمے کو توجہ ملنے کے باوجود بیشتر لڑکیاں اتنی خوش نصیب نہیں ہوتیں کہ ان کے معاملات پر اس طرح عام گفتگو ہو۔ بغداد کی ایک وکیل مریم البواب کے مطابق یہ معاملہ اس لیے میڈیا کی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوا کیونکہ اس کی والدہ کا بیان سوشل میڈیا پر وائرل ہو گیا تھا اور اس سے ملک بھر میں ایک نئی بحث نے جنم لیا۔
"لیکن ہزاروں ایسے معاملات ہیں جو میڈیا کی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب بھی ہوئے، لیکن ان میں سے کئی شادیاں بغیر کسی مسئلے کے جاری و ساری رہیں۔”
ایک بین الاقوامی این جی او ‘سیو دی چلڈرن’ نے شادی کے لیے کم از کم عمر 18 سال مقرر کرنے اور اس میں کوئی استثنیٰ نہ دینے کا مطالبہ کرتی ہے۔
ہالہ نے کہا کہ "کفرناحوم کی کہانی بظاہر فرضی لگتی ہے، لیکن در حقیقت یہاں عراق میں یہ کہانی بار ہا دہرائی جاتی ہے۔” وہ 2018ء کی اس لبنانی فلم کا حوالہ دے رہی تھیں جس میں ایک غریب خاندان اپنی 11 سالہ بیٹی کو دو مرغیوں کے بدلے میں بیچ دیتا ہے۔
جواب دیں