سرِ عام دست درازی، ساتھی کے ہاتھوں قتل، مالک کی جانب سے مار پیٹ، کرونا وائرس کی وبا کے دوران ایشیا میں خواتین کو گھریلو تشدد اور جنسی و صنفی بنیاد پر استحصال کے علاوہ بھی بہت کچھ سہنا پڑ رہا ہے۔ بین الاقوامی انجمنِ صلیبِ احمر اور ہلال احمر کی جاری کردہ رپورٹ کا کہنا ہے کہ اس کی وجہ خاندانوں پر بڑھتا ہوا معاشی و سماجی دباؤ اور لاک ڈاؤن کی وجہ سے خواتین کے مجبوراً گھر میں رہنا اور دیگر عوامل ہیں۔
ماہرین کے مطابق پاکستان جیسے ممالک میں خواتین اور لڑکیوں پر تشدد کی سطح خطرناک حد تک پہنچ چکی ہے۔ حال ہی میں یہاں جو ہائی پروفائل کیسز سامنے آئے ہیں ان میں 27 سالہ نور مقدم کا واقعہ بھی شامل ہے، جنہیں جولائی میں بد ترین تشدد کے بعد بہیمانہ انداز میں قتل کیا گیا تھا۔ مرکزی ملزم ظاہر جعفر نے انہیں تین روز تک اپنے گھر میں بند رکھا اور جب انہوں نے بھاگنے کی کوشش کی تو سکیورٹی گارڈ اور مالی نے گھر کا مرکزی دروازہ بند کر دیا، یہاں تک کہ اسی گھر میں وحشیانہ انداز میں قتل کے بعد ان کا سر تک قلم کر دیا گیا۔
دوسری جانب سنگاپور جیسے ترقی یافتہ ممالک میں بھی حالیہ چند سالوں میں جنسی تشدد کے واقعات میں بڑا اضافہ ہوا ہے، لیکن ایک ادارے ‘اویئر’ کے مطابق 70 فیصد ایسے واقعات کی با ضابطہ شکایت ہی درج نہیں کروائی جاتی کیونکہ مظلوم کو خوف ہوتا ہے کہ اس کی بات پر یقین نہیں کیا جائے گا اور اسے خاندان اور دوستوں کے ردعمل کا خوف بھی ہوتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: تنازعات میں جنسی تشدد کے خاتمے کے عالمی دن
دنیا بھر میں تقریباً 73.6 کروڑ خواتین اور لڑکیوں، یعنی ہر تین میں سے ایک کو اپنی زندگی میں کم از کم ایک مرتبہ جنسی تشدد کا سامنا کرنا پڑا ہے، اور واضح رہے کہ اس میں جنسی ہراسگی شامل نہیں ہے۔ کووِڈ -19 بحران نے تو اس بحران کو مزید شدید بنا دیا ہے۔
وبا کے دوران کئی ممالک میں گھریلو تشدد میں کی زبردست لہر بھی آئی۔ ہانگ کانگ کے پہلے دارالامان ‘ہارمنی ہاؤس’ کی ترجمان کا کہنا ہے کہ گزشتہ سال جنوری سے رواں سال فروری تک تقریباً ایک سال کے دوران یہاں 272 خاندانوں کو داخلہ دیا گیا ہے۔
"گھریلو تشدد ایک عام مسئلہ ہے لیکن کووِڈ -19 نے گھریلو تشدد کے مواقع اور اس کے تسلسل میں اضافے کا موقع دیا ہے، یہی وجہ ہے کہ دار الامان آنے والوں کی تعداد بہت بڑھی ہے۔”
خواتین پر جنسی تشدد کے حوالے سے ہانگ کانگ کی ایک انجمن کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر لنڈا یونگ کا کہنا ہے کہ خواتین اور لڑکیوں کی جانب سے مدد کے مطالبات بڑھ رہے ہیں۔ اپریل 2020ء سے رواں سال مارچ کے دوران اُن کی ہیلپ لائن کو 2,665 شکایات موصول ہوئیں۔ یہ چار سال میں سب سے بڑی تعداد ہے۔
یہ بھی پڑھیں: دنیا کی ایک تہائی خواتین جسمانی و جنسی تشدد کا شکار، ہولناک رپورٹ
کالج اور اسکول تک رسائی محدود ہو جانے کی وجہ سے ہانگ کانگ کے علاوہ دیگر مقامات پر بھی لڑکیوں کو جبری شادی کے خطرے کا سامنا ہے۔ پاکستان اور بھارت جیسے ممالک میں تو جبری شادی ویسے ہی ایک مستقل مسئلہ تھا لیکن کرونا وائرس نے صورت حال کو مزید گمبھیر کر دیا ہے۔ روزگار کے مواقع گھٹ جانے اور بڑھتے ہوئے مالی دباؤ کی وجہ سے بھی لوگ اپنی بچیوں کو چھوٹی عمر ہی میں بیاہ رہے ہیں۔
ہلال احمر کی رپورٹ کے مطابق تارکینِ وطن کو بنیادی خدمات تک رسائی میں دشواریوں کا سامنا ہے، یہی وجہ ہے کہ وہ کرونا وائرس کی زد میں ہیں اور اس سے زیادہ متاثر ہیں۔ کئی افراد میں ذہنی تناؤ اور حد سے زیادہ کام کرنے کی علامات ظاہر ہوئیں لیکن چند کو جسمانی تشدد کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ ہانگ کانگ میں ایک غیر ملکی خاتون کارکن نے الزام لگایا کہ اس کا مالک ایک سال سے زیادہ عرصے سے اس کا استحصال کر رہا ہے۔ یہ خبر منظرِ عام پر آنے کے بعد ملک میں کام کرنے والے 3,70,000 غیر ملکی کارکنان میں زبردست اشتعال پیدا ہوا، جن میں سے زیادہ تر فلپائن اور انڈونیشیا کی خواتین تھیں۔ اب یہ معاملہ عدالت میں زیرِ سماعت ہے۔
ایشیا کے چند خطوں میں سیاسی عدم استحکام بھی خواتین کے لیے چیلنج بن کر ابھرا ہے۔ مثلاً اگست میں افغانستان میں طالبان کے ایک مرتبہ پھر برسرِ اقتدار آنے کے بعد خواتین اور لڑکیوں کی نقل و حرکت محدود ہے اور انہیں کام کرنے یا تعلیم حاصل کرنے سے بھی روکا جا رہا ہے۔ جو خواتین اِن اقدامات کے خلاف سڑکوں پر آئیں، انہیں تشدد کا سامنا کرنا پڑا اور کئی ایسی بھی ہیں کہ جنہیں مارنے کی دھمکیاں بھی ملیں۔ شمالی افغانستان کے شہر مزار شریف میں ایک 29 سالہ کارکن فروزاں صافی 20 اکتوبر کو لاپتہ ہوئیں اور چند روز بعد ان کی لاش ملی، انہیں کئی گولیاں ماری گئی تھیں۔
یہ بھی پڑھیں: افغانستان میں چار خواتین کا قتل، ایک حقوقِ نسواں کی معروف کارکن نکلیں
اُدھر برما میں فروری میں فوجی انقلاب آیا جس کے بعد مظاہروں میں گارمنٹ فیکٹریوں کے کارکنان پیش پیش ہیں جن میں سے تقریباً 90 فیصد خواتین کارکنان ہیں۔ ان کا مطالبہ جہاں بہتر تنخواہیں ہے تو وہیں چند جمہوریت کے لیے جدوجہد بھی کر رہی ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق فوجی انقلاب کے بعد سے خواتین منظرِ عام سے غائب ہو رہی ہیں۔ دارالحکومت ینگون میں مارشل لا کے دوران فوجی چوکیوں پر رشوتیں طلب کی جا رہی ہیں اور خواتین کو زبانی اور جنسی طور پر ہراساں کیا جا رہا ہے۔
ایک بڑا مسئلہ خواتین کی معیوب وڈیوز اور تصاویر کا آن لائن آنا بھی ہے، جس کے واقعات کووِڈ-19 کی وبا کے دوران بہت بڑھ گئے ہیں اور ہانگ کانگ سے لے کر کمبوڈیا تک، کوئی ملک اس قبیح جرم سے پاک نہیں۔
جنوبی کوریا میں حالیہ چند سالوں کے دوران اس حوالے سے کئی بڑے واقعات سامنے آئے ہیں، جس کے بعد ماہرین کا کہنا ہے کہ اب سخت اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔ کوریا میں ویمنز ہیومن رائٹس انسٹیٹیوٹ کے مطابق اس سال ڈجیٹل جنسی جرائم کا نشانہ بننے والی 1,200 کم عمر لڑکیوں نے ان سے رابطہ کیا۔
یہ بھی پڑھیں: کووِڈ-19 اور خواتین پر تشدد میں اضافہ، حکومتوں کو کیا کرنا چاہیے؟
جنوبی کوریائی حکام نے اکتوبر میں چند افراد کو گرفتار کیا تھا جنہوں نے ایک ہوٹل کے ملازم کو رشوت دے کر تمام کمروں میں خفیہ کیمرے لگوائے تھے۔ وہ سینکڑوں مہمانوں کی وڈیوز بنانے میں کامیاب بھی ہوئے، جن کے ذریعے وہ انہیں بلیک میل بھی کرتے رہے۔ پھر حکام نے گزشتہ ماہ ایک ایلیمنٹری اسکول کے پرنسپل کو گرفتار بھی کیا جس نے عملے کی خواتین اراکین کے زیر استعمال غسل خانے میں خفیہ کیمرے لگا رکھے تھے۔
ہیومن رائٹس واچ میں خواتین کے حقوق کے شعبے کی سینیئر کوآرڈی نیٹر ایریکا اینگوین کہتی ہیں کہ انفرادی طور پر تو یہ واقعات بھیانک ہیں ہی لیکن مجموعی طور پر بھی یہ ظاہر کرتے ہیں کہ ڈجیٹل جنسی جرائم کہاں تک پھیلے ہوئے ہیں۔ خواتین کی وڈیوز اور تصاویر ان کی رضا مندی کے بغیر بنائی جاتی ہیں اور کبھی کبھار ان وڈیوز کے ساتھ چھیڑ خانی کر کے خواتین کو بدنام یا بلیک میل بھی کیا جاتا ہے اور یہ عمل جنوبی کوریا میں جاری و ساری ہے۔ انہوں نے اس حوالے سےا یک جامع ایکشن پلان کا مطالبہ کیا۔
Pingback: خواتین پر تشدد، صحت کے حوالے سے دنیا بھر میں ایمرجنسی - دی بلائنڈ سائڈ