عرصہ دراز تک افغانستان کی پہچان رہنے والی شربت گلہ ملک سے ہجرت کر کے اٹلی پہنچ گئي ہیں، جس کی تصدیق اطالوی حکام نے کر دی ہے۔
شربت گلہ کو 1985ء میں اس وقت عالمگیر شہرت ملی تھی جب ان کی ایک تصویر نیشنل جیوگرافک میگزین کے سر ورق پر شائع ہوئی تھی۔ تب ان کی عمر صرف 12 سال تھی اور وہ پشاور کے جلوزئی مہاجر کیمپ میں مقیم تھیں جب امریکی فوٹوگرافر اسٹیو میک کری نے ان کی تصویر لی، لیکن ان کے بارے میں تب کچھ معلوم نہیں تھا۔ یہی وجہ ہے کہ تصویر صرف ‘افغان گرل’ کے نام سے مشہور ہوئی اور انہوں نے زندگی کا بیشتر حصہ گمنامی اور کسمپرسی میں گزارا۔
ان کی اصلیت، نام اور دیگر پہلوؤں کے بارے میں تب پتہ چلا جب 2002ء میں امریکی قبضے کے دوران اسٹیو میک کری افغانستان گئے اور انہیں ڈھونڈ نکالا۔
یہ بھی پڑھیں: افغانستان سے فرار ہونے والی فٹ بالر لڑکیاں بالآخر برطانیہ پہنچ گئیں
شربت گلہ نے بتایا تھا کہ وہ روس کی در اندازی کے چار، پانچ سال بعد 1979ء میں پاکستان پہنچی تھیں لیکن افغانستان کے حالات میں نشیب و فراز آتا رہا اور وہ کبھی افغانستان اور کبھی پاکستان آتی جاتی رہیں یہاں تک کہ2016ء میں انہيں پاکستان کا جعلی قومی شناختی کارڈ حاصل کرنے کی کوشش پر پکڑا بھی گیا تھا۔
بہرحال، شربت گلہ کی اس مشہور تصویر نے روس کی در اندازی اور اس کے نتیجے میں افغانستان اور افغانوں کی حالت زار کی بھرپور عکاسی کی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: افغانستان کی ملالہ کا طالبان سے لڑکیوں کے اسکول کھولنے کا مطالبہ کامیاب ہو گیا
رواں سال اگست میں طالبان کے ایک مرتبہ پھر برسرِ اقتدار آنے کے بعد ملک سے بڑے پیمانے پر ہجرت ہوئی ہے اور شربت گلہ بھی ان خواتین میں شامل ہیں جو غیر یقینی مستقبل کی وجہ سے ملک سے ہجرت کر گئی ہیں کیونکہ انہیں تعلیم، روزگار اور شخصی آزادی کے حوالے سے خدشات لاحق ہیں۔ اٹلی تقریباً 5 ہزار افغانوں کے ملک سے انخلا میں مدد دے چکا ہے اور رواں ماں اس نے افغانستان کی پہلی خاتون چیف پراسیکیوٹر ماریہ بشیر کو بھی شہرت دینے کا اعلان کیا تھا، جو 9 ستمبر کو اٹلی پہنچی تھیں۔
جواب دیں