پاکستان میں رجسٹرڈ رائے دہندگان کی تعداد 11.9 کروڑ ہے لیکن ملک کے کُل 133 میں سے 81 اضلاع ایسے ہیں جہاں مرد اور خواتین ووٹرز کے مابین فرق 10 فیصد سے بھی زیادہ ہے۔
تازہ ترین تجزیے کے مطابق خیبر پختونخوا کے پانچ کے سوا تمام اضلاع اس فہرست میں موجود ہیں۔ یہاں 34 میں سے 28 اضلاع ایسے ہیں، جن میں ضلع پشاور تک شامل ہے، جہاں خواتین اور ووٹرز کی تعداد میں فرق 10 فیصد سے زیادہ ہے۔ بلوچستان کے 33 میں سے 26، پنجاب کے 37 میں سے 17 اور سندھ کے 29 میں سے 9 اضلاع ایسے ہیں جہاں یہ صنفی تفریق اس حد تک موجود ہے۔
سب سے سنگین صورت حال ملک کے ان چار اضلاع میں ہے جہاں یہ خواتین ووٹرز کی شرح 40 فیصد سے کم ہے۔ ان میں سے دو اضلاع بلوچستان میں اور دو خیبر پختونخوا میں ہیں۔ بلوچستان کے ضلع قلعہ عبد اللہ اور کوہلوں میں کُل رجسٹرڈ ووٹرز میں خواتین تناسب بالترتیب 35.75 اور 37.72 فیصد ہے جبکہ خیبر پختونخوا کے اضلاع شمالی اور جنوبی وزیرستان میں یہ شرح بالترتیب 38.69 اور 39.05 فیصد ہے۔
یہ بھی پڑھیں: قومی اسمبلی کے 104 حلقوں میں مرد اور خواتین ووٹرز کی تعداد میں 50 ہزار سے زیادہ کا فرق
اس کے برعکس 7 اضلاع ایسے ہیں جہاں یہ شرح 47 فیصد یا اس سے زیادہ ہے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ اس فہرست میں بھی بلوچستان کے دو اضلاع شامل ہیں جبکہ باقی پانچوں اضلاع پنجاب کے ہیں۔
پنجاب کا ضلع چکوال 49 فیصد سے زیادہ شرح کے ساتھ خواتین کے لیے ایک مثالی ضلع ہے۔ اس ضلع میں کُل ووٹرز کی تعداد 11.9 لاکھ ہے جن میں 6 لاکھ سے زیادہ ووٹرز مرد جبکہ 5.8 لاکھ خواتین ہیں، یعنی وہ کُل ووٹس کا 49.07 فیصد بنتی ہیں۔ یہاں مردوں اور عورتوں کے درمیان ووٹوں کا فرق صرف 1.86 فیصد ہے۔
اس کے بعد ضلع جہلم ہے کہ جہاں خواتین کُل ووٹرز کا 48.12 فیصد ہیں جبکہ اگلا ضلع راولپنڈی ہے جس میں خواتین ووٹرزکی تعداد 47.84 فیصد ہے۔ ضلع اٹک میں مرد کُل ووٹرز کا 52.23 فیصد اور خواتین 47.77 فیصد ہیں۔
بلوچستان کے ضلع صحبت پور میں کُل ووٹوں کی تعداد 1,08,014 ہے جن میں سے 56,545 یعنی 52.35 فیصد مرد اور 51,469 یعنی 47.65 فیصد خواتین ہیں۔ آخر میں پنجاب کے ضلع خوشاب میں خواتین کُل ووٹر کا 47.42 فیصد اور بلوچستان کے ضلع واشک میں خواتین ووٹرز کی تعداد 47 فیصد ہے۔
یہ بھی پڑھیں: خواتین کو با اختیار بنانے کے عمل کو تبدیلی اور نئے حلوں کی ضرورت
پنجاب کے 15 اور سندھ کا ایک ضلع ایسا ہے جہاں خواتین اور مردوں ووٹرز کے درمیان 2 لاکھ سے بھی زیادہ ووٹوں سے فرق ہے۔ پنجاب کے پانچ اضلاع میں تو یہ تفریق کُل 20 لاکھ سے زیادہ ہے جن میں لاہور اور فیصل آباد کا حصہ ہی تقریباً 10 لاکھ کا ہے۔
ضلع لاہور میں کل ووٹرز کی تعداد 61 لاکھ ہے جس میں سے 33.2 لاکھ مرد اور 27.7 لاکھ خواتین ہیں، یعنی دونوں کے درمیان فرق 5.48 لاکھ کا ہے۔ فیصل آباد میں یہ فرق نسبتاً کم لیکن پھر بھی 4.48 لاکھ تک کا ہے۔ گوجرانوالہ تیسرا ضلع ہے جہاں یہ فرق 3.54لاکھ کا ہے جبکہ رحیم یار خان میں 3.51 لاکھ کا ہے۔
سندھ کا ضلع کراچی غربی تقریباً 3 لاکھ کا فرق رکھتا ہے جہاں مرد اور خواتین ووٹرز کی تعداد بالترتیب 9.98 لاکھ اور 6.98 لاکھ ہے، یوں خواتین کُل ووٹرز میں سے 41.16 فیصد بنتی ہیں۔
پنجاب کے ضلع قصور میں کُل 21.7 لاکھ ووٹرز میں سے 9.04 لاکھ خواتین ہیں اور مردوں اور ان کے ووٹوں میں 2.68 لاکھ کا فرق ہے۔ شیخو پورہ میں یہ فرق 2.54 لاکھ جبکہ سیالکوٹ میں 2.49 لاکھ، مظفر گڑھ میں 2.33 لاکھ اور بہاولنگر میں 2.29 لاکھ ہے۔
2 لاکھ سے زیادہ ووٹوں کا فرق رکھنے والے پنجاب کے دیگر اضلاع ملتان، وہاڑی، اوکاڑہ، بہاولپور، سرگودھا اور خانیوال ہیں۔
مجموعی طور پر پنجاب اور سندھ ہی ایسے صوبے ہیں کہ جہاں 45 فیصد سے زيادہ ووٹرز خواتین ہیں۔ ان دونوں صوبوں میں خواتین ووٹرز کی کُل تعداد بالترتیب 45.27 فیصد اور 45.94 فیصد ہے۔ خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں یہ شرح 43.70 فیصد اور 42.98 فیصد ہے جبکہ وفاقی دارالحکومت میں خواتین ووٹرز کا تناسب کُل ووٹوں کا 46.97 فیصد ہے۔
جواب دیں