دنیا بھر میں کرونا وائرس کی وجہ سے اسکولوں کی طویل بندش سے نہ صرف تعلیمی سلسلہ متاثر ہو رہا ہے بلکہ اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو کی نئی تحقیق کے مطابق اس سے صنفی مساوات کے لیے بھی خطرات پیدا ہو رہے ہیں۔
"When schools shut: Gendered impacts of COVID-19 school closures” کے عنوان سے جاری کردہ یہ عالمی تحقیق اس حقیقت کو سامنے لاتی ہے کہ لڑکیاں اور لڑکے، نو عمر خواتین اور مرد اسکولوں کی بندش سے مختلف انداز میں متاثر ہو رہے ہیں۔
یونیسکو کی اسسٹنٹ ڈائریکٹر برائے تعلیم اسٹیفنیا جیانینی نے کہا کہ
"کووِڈ-19 کی وبا کے عروج کے وقت میں 190 ممالک کے 1.6 ارب طلبہ متاثر ہوئے۔ نہ صرف وہ تعلیم بلکہ اسکول جانے کے دیگر فوائد سے بھی بری طرح محروم ہوئے۔ تعلیمی سلسلے میں اتنے بڑے پیمانے پر رکاوٹ سے تعلیم کا سلسلہ جہاں بری طرح متاثر ہوا وہیں طلبہ کے اسکول چھوڑ دینے کی شرح بھی بڑھی۔ یہی نہیں بلکہ اس سے صنفی مساوات کو بھی نقصان پہنچا، جس میں صنفی بنیادوں پر صحت، بہبود اور تحفظ کے معاملات شامل ہیں۔”
90 ممالک سے حاصل کردہ شواہد اور تفصیلی ڈیٹا کی بنیاد پر یہ رپورٹ ظاہر کرتی ہے کہ صنفی بنیادوں پر حالات اور توقعات فاصلاتی تعلیم (ریموٹ لرننگ) میں حصہ لینے اور اس سے فائدہ اٹھانے کی صلاحیت کو بھی متاثر کر سکتی ہے۔ رپورٹ کا کہنا ہے کہ غربت کے حالات میں لڑکیوں کا تعلیم کا وقت بڑھتے ہوئے گھریلو کام کی وجہ سے کم ہوا ہے۔ جبکہ لڑکوں کی تعلیم شرکت آمدنی حاصل کرنے والی سرگرمیوں کی وجہ سے محدود ہوئی۔ لڑکیوں کو ڈجیٹل فاصلاتی تعلیم حاصل کرنے میں زیادہ تر مشکلات رہی ہیں کیونکہ ان کی انٹرنیٹ رکھنے والی ڈیوائسز تک رسائی کم ہے اور ان کی ڈجیٹل صلاحیتیں بھی کم ہیں اور روایات انہیں ایسی ڈیوائسز حاصل کرنے سے روکتی بھی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: دنیا کی اکثریت صنفی مساوات کی حامی، لیکن حقائق کیا کہتے ہیں؟
تحقیق کہتی ہے کہ ڈجیٹل صنفی تقسیم کووِڈ-19 بحران سے پہلے ہی خدشے کا سبب تھی۔ عالمی رپورٹ میں بنگلہ دیش اور پاکستان پر موجود تحقیق اسکولوں کی بندش کے دوران فاصلاتی تعلیم پر صنفی اثرات ظاہر کرتی ہے۔ پاکستان کے بارے میں تحقیق کا کہنا ہے کہ صرف 44 فیصد لڑکیاں ذاتی استعمال کے لیے موبائل رکھتی ہیں، جبکہ لڑکوں میں یہ شرح 93 فیصد ہے۔ جن لڑکیوں کے پاس اپنا موبائل نہیں ہے وہ اپنے رشتہ داروں کی ڈیوائسز پر بھروسہ کرتی ہیں، جو عموماً والد کی ڈیوائس ہوتی ہے۔ گو کہ چند لڑکیاں اپنے عزیزوں کی ڈیوائسز استعمال کرتی ہیں، لیکن وہ ہر وقت ان کے لیے دستیاب نہیں ہوتی۔ اس کے علاوہ ان کی رسائی اس لیے بھی محدود رہی کیونکہ والدین سمجھتی ہیں کہ اسمارٹ فون تک رسائی سے اس کا غلط استعمال ہوگا اور اس سے وہ کسی غلط صحبت میں پڑ سکتی ہے۔
رپورٹ کا کہنا ہے کہ لڑکیاں جتنا اسکول سے باہر رہیں گی، ان کی تعلیم کے نقصان کا خدشہ اتنا زیادہ ہے۔ اپریل سے ستمبر 2020 کے دوران ایسی لڑکیوں کی تعداد 1 سے 10 فیصد رہی کہ جنہوں نے کہا کہ وہ بالکل تعلیم حاصل نہیں کر رہیں۔
یہ بھی پڑھیں: کرونا وائرس، ایک کروڑ سے زیادہ لڑکیاں کبھی اسکول واپس نہیں آ سکیں گی
وبا نے یہ ثابت کیا ہے کہ اسکول محض تدریس کے مقامات نہیں بلکہ یہ لڑکوں اور لڑکیوں دونوں کی صحت، بہبود اور تحفظ کے لیے بھی اہمیت رکھتے ہیں۔ اس لیے یہ رپورٹ مختلف سفارشات پیش کرتی ہے کہ فاصلاتی تعلیم میر صنفی رکاوٹیں کس طرح ختم کی جا سکتی ہیں۔ اس کا کہنا ہے کہ "صنفی بنیادوں پر فاصلاتی تعلیم کی یکساں فراہمی کے لیے تجویز کیا جاتا ہے کہ کم ٹیکنالوجی اور بغیر ٹیکنالوجی کے حل بھی پیش کیے جائیں جو اس خطرے سے دوچار افراد کو ہدف پر رکھتے ہوں، اس کے علاوہ ایسے تعلیمی ذرائع اور ٹولز بنائے جائیں جو صنفی بنیاد پر مرتب کیے گئے ہوں اور سب سے زیادہ خطرے کی زد میں موجود طلبہ کو مد نظر رکھ کر بنائے جائیں۔
جواب دیں