جولائی میں فوجی حکومت کے خلاف ہتھیار اٹھانے سے پہلے کابیا مے نے کبھی پاجامہ نہیں پہنا تھا۔ میانمار کی بیشتر خواتین کی طرح یہ 23 سالہ استانی بھی ایک ٹخنوں تک لٹکا ہوا لہنگا پہنتی ہے جسے ہتامین کہتے ہیں۔ اب وہ میاؤنگ ویمن واریئرز کا حصہ ہیں، میانمار کا پہلا اعلانیہ مکمل طور پر خواتین پر مشتمل جنگجو گروپ۔
کابیا مے نے کہا کہ
"میں نے اس لیے شمولیت اختیار کی کیونکہ میں ان کتوں کا خاتمہ چاہتی ہوں۔ خواتین کے واحد مزاحمتی گروپ میں شمولیت کی وجہ یہ ظاہر کرنا ہے کہ خواتین بھی مردوں کی طرح سب کچھ کر سکتی ہیں۔”
کابیا مے ان خواتین میں سے ایک ہیں جنہوں نے یکم فروری کو ہونے والی فوجی بغاوت کے بعد ملک پر مسلط آمریت کے خلاف مسلح جدوجہد میں شمولیت اختیار کی ہے۔ ان خواتین کا کہنا ہے کہ وہ فوجی آمریت کے خاتمے کے ساتھ ساتھ روایتی صنفی تاثر کا بھی خاتمہ چاہتی ہیں اور یقینی بنانے کی خواہشمند ہیں کہ خواتین نئی قوم کی تعمیر میں یکساں کردار رکھیں۔
یہ بھی پڑھیں: فلسطین کی خواتین، اسرائیل کے خلاف مزاحمت میں پیش پیش
خواتین نے فوج کے سربراہ من آنگ ہلانگ کی جانب سے اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد مظاہروں کی تحریک میں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ گارمنٹ فیکٹریوں میں کام کرنے والی خواتین آمریت کے خلاف سب سے پہلے سڑکوں پر آئی تھیں اور اب بھی وہ جمہوریت حامی مظاہروں میں پیش پیش ہیں۔ اس کے علاوہ وہ سول نافرمانی کی جاری تحریک میں بھی نمایاں کردار ادا کر رہی ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ وہ فوجی کریک ڈاؤن کی بھی زد میں ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق فوجی بغاوت کے بعد سے اب تک 1,260 افراد سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں مارے جا چکے ہیں کہ جن میں سے کم از کم 87 خواتین ہیں جبکہ قید میں موجود 12,000 افراد میں سے 1,300 سے زیادہ خواتین ہیں۔
جواب دیں