ملائیشیا کے تقریباً آدھے مرد ریپ کی وجہ عورت کو ہی قرار دیتے ہیں اور گھریلو تشدد کو بھی معمول سمجھتے ہیں۔ گو کہ ملک کے عوام خواتین پر تشدد کے معاملات کو سمجھتے ہیں لیکن آدھے ہی ایسے ہی جو صنفی مساوات کی حمایت کرتے ہیں۔
ملائیشیا کی ویمنز ایڈ آرگنائزیشن کی ایک حالیہ تحقیق میں شامل 46.3 فیصد ملائیشین باشندے صنفی مساوات کے حامی ہیں جبکہ 52.7 فیصد تشدد پر مبنی رویّے کے خلاف ہیں۔ لیکن تشویش ناک بات یہ ہے کہ سروے میں شامل 53.3 فیصد افراد سمجھتے ہیں کہ گھریلو تشدد ذہنی دباؤ یا پریشانی کی وجہ سے مرد کی جانب سے ظاہر کیا گیا "معمول” کا ردِ عمل ہے اور 43 فیصد کا ماننا ہے کہ خواتین مردوں کو اتنا تنگ کر دیتی ہیں کہ وہ نہ چاہتے ہوئے بھی غصے میں ہاتھ اٹھا دیتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ملائیشیا، گھریلو تشدد کی شکار 826 خواتین کی مدد کی گئی
یہی نہیں 30 فیصد افراد یہ سمجھتے ہیں کہ بے حیا عورتیں اپنے شوہروں کے ہاتھوں پٹنے کی وجہ ہوتی ہیں جبکہ 26.5 فیصد کا ماننا تھا کہ اگر غصے میں کوئی شخص اپنے اعصاب پر قابو نہ رکھ پائے تو اس کی جانب سے کیا گیا گھریلو تشدد ایسا عمل ہے جو "قابلِ معافی” ہے ۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اب بھی عورتوں پر تشدد کو مخصوص حالات میں ہی سہی، لیکن قابلِ قبول عمل سمجھا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ 37.1 فیصد افراد سمجھتے ہیں کہ ایک ظالم شوہر کو چھوڑنا آسان نہیں اور 44.9 فیصد سمجھتے ہیں کہ اپنے ظالم شوہروں کے ساتھ رہنے والی خواتین بھی اپنے استحصال کا سبب ہیں۔
اس کے علاوہ سروے میں شامل 83.4 فیصد سمجھتے ہیں کہ ریپ تب ہوتا ہے جب مرد اپنے جذبات پر قابو نہیں رکھ پایا اور 51.3 فیصد سمجھتے ہیں کہ ایسے جنسی جرائم خواتین کے معیوب لباس کی وجہ سے ہوتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: ملائیشیا، قومی بجٹ میں خواتین کے لیے خصوصی فنڈز
البتہ ملائیشین عوام کو انٹرنیٹ پر ہراسگی، جاسوسی کرنے اور روک ٹوک والے رویّے پر زیادہ معلومات نہیں اور صرف 11 فیصد افراد روک ٹوک کرنے کو گھریلو تشدد کی قسم نہیں سمجھتے۔
بہرحال، اس سروے کے روشن پہلو دیکھیں تو 70.3 فیصد نے کم عمری کی شادی کی مخالفت کی جو ملائیشیا میں اب بھی قانون کے تحت ہو سکتی ہے اور یہاں مخصوص حالات میں 16 سے 17 سال کی بچیوں کی شادی کی اجازت ہے۔
ادارے نے اس رپورٹ کے ساتھ اپنی 9 سفارشات بھی پیش کی ہیں، جن کا مقصد عوام میں شعور اجاگر کرنا، تشدد کی وجہ بننے والے رویّے کو روکنا اور کم عمری کی شادی اور عورتوں کے ختنے کے خاتمے کے لیے سیاسی ارادے کو مہمیز دینا ہے۔
جواب دیں