ایک نئے #MeToo اسکینڈل نے فرانسیسی میڈیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ آٹھ خواتین نے فرانسیسی ٹیلی وژن چینل TF1 کے ایک معروف سابق اینکر پیٹرک پوئیورے ڈی آروَر پر الزام لگایا ہے کہ ان پر ریپ اور جنسی حملوں کے مرتکب ہوئے ہیں۔ اب سوشل میڈیا پر کئی صحافی ہراسگی، خوف اور جنسی استحصال کی مذمت میں سامنے آ رہے ہیں۔
ایک صحافی ٹفین بلوٹ نے ٹوئٹ کیا ہے کہ "جنسی ہراسگی، تذلیل، امتیاز، استحصال۔۔ مشکل ترین حالات کے باوجود جدوجہد جاری ہے، ابھی سے فتح کا احساس ہو رہا ہے۔”
ایک اور خاتون نے ایک صحافی کے بارے میں لکھا ہے کہ
"اس نے میرا ریپ کیا، مجھے ہراساں کیا اور مجھے بدنام کیا۔ میں اس کی اور اس کی گرل فرینڈ کی وجہ سے صحافت کا شعبہ ہی تقریباً چھوڑنے والی تھی، جس نے مجھے کہا تھا کہ مجھ جیسی بد صورت کو کون ریپ کرے گا۔”
ایک صحافی ایما آڈرے نے ایک ٹوئٹ میں یاد دلایا کہ ہراسگی محض دفتر میں نہیں ہوتی، بلکہ یہ سڑکوں پر بھی ہر سمت سے ہوتی ہے، پولیس، مظاہرین، راہ گیروں وغیرہ کے ہاتھوں۔
فرانس کی میڈیا انڈسٹری میں اس وقت ہنگامہ برپا ہے اور زیادہ سے زیادہ صحافی #MeTooMédias کا ہیش ٹیگ استعمال کر کے جنسی تشدد اور ہراسگی کے واقعات پر بات کر رہے ہیں۔ چند صحافیوں نے بتایا ہے کہ کس طرح وہ دو طرح سے متاثر ہوئے، پہلے ہراسگی سے اور پھر اس بارے میں بات کرنے پر پیدا ہونے والے حالات سے۔
یہ بھی پڑھیں: فرانس، ہر تین دن میں ایک خاتون کا موجودہ یا سابق ساتھی کے ہاتھوں قتل
میری البرٹ ایک سابق صحافی ہیں جو معروف خبر رساں ادارے ایجنسی فرانس پریس (اے ایف پی) سے وابستہ تھیں، بتاتی ہیں کہ جب انہوں نے اپنے ایک دفتری ساتھی کے ہاتھوں چھ ماہ تک جنسی طور پر ہراساں کیے جانے پر بات کی تو ان کا کانٹریکٹ تازہ نہیں کیا گیا۔
ایلوڈی ہروے کہتی ہیں کہ دفتر میں جنسی حملے کی کوشش کی اطلاع دینے پر انہیں نیوز چینل LCI نے کام دینا بند کر دیا تھا۔ اب وہ ایک وکیل کی مدد سے اپنے حق کی جنگ لڑ رہی ہیں۔
دفاتر میں مرد اور خواتین کے جنسی استحصال کی یہ باتیں ایک فرانسیسی اخبار ‘لبریشن’ کی دھماکا خیز رپورٹ کی وجہ سے سامنے آ رہی ہیں، جس میں آٹھ خواتین نے سابق ٹی وی میزبان پیٹرک پیٹرک پوئیورے ڈی آروَر پر ریپ اور جنسی حملوں کا الزام لگایا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: ظالم شوہر کو قتل کرنے والی خاتون کو آزادی مل گئی
پیٹرک فرانس کا ایک مقبول نام ہیں، جن کی عمر اب 74 سال ہے۔ وہ 21 سال تک TF1 پر شام کی خبریں پیش کرتے رہے۔ 2003ء میں فرانس کے اُس وقت کے صدر ژاک شیراک نے انہیں ملک کا اعلیٰ ترین شہری اعزاز بھی دیا تھا۔ لیکن اب انہیں بد ترین الزامات کا سامنا ہے۔ جن خواتین نے کھل کر بات کی ہے، ان میں سے ایک اسٹیفنی کیاٹ ہیں، جنہوں نے بتایا کہ پیٹرک نے پہلی بار 1994ء میں ان کا ریپ کیا تھا۔ "میں اس وقت عدم اشتہا (بھوک نہ لگنے) کے مرض کا شکار تھی۔ میں نے کبھی اس واقعے کے بارے میں کسی کو نہیں بتایا تھا کیونکہ میں خود سے شرمندہ تھی۔ مجھے آج بھی سوچ کر گھن آتی ہے کہ اس کے باوجود میں مزید چار سال تک ان کے ادارے میں کام کیوں کرتی رہی؟
پیٹرک کی بیٹی سولین بھی اسی مرض کا شکار تھیں اور 1995ء میں انہوں نے خود کشی کر لی تھی۔ کیاٹ کہتی ہیں کہ یہی وجہ ہے کہ دفتر میں پیٹرک مجھ پر بہت توجہ دیتے تھے۔ اس مرض سے نمٹنے میں انہوں نے میری مدد بھی کی اور ایک ماہر معالج سے میرا رابطہ بھی کروایا۔ لیکن علاج مکمل ہونے کے بعد جب میں دفتر واپس آئی تو انہوں نے پھر میرا ریپ کیا۔
یہ بھی پڑھیں: ریپ کی شکار خواتین کے لیے اپنا فون پولیس کے حوالے کرنا ضروری نہیں رہا
پیٹرک اپنے خلاف لگنے والے تمام الزامات کو مسترد کرتے ہیں۔ رواں سال کے اوائل میں ان کے خلاف ایک مقدمہ خارج بھی ہو چکا ہے جس میں عدالت کا کہنا تھا کہ 22 خواتین کی شہادتوں میں کوئی ثبوت موجود نہیں۔
ان خواتین نے ایک ادارہ #MeTooMédias بنانے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ میڈیا انڈسٹری میں خاموشی سے سب کچھ برداشت کرنے والی خواتین اور مردوں کی بھی آواز بنیں۔
جواب دیں