انسانی حقوق کے عالمی ادارے ہیومن رائٹس واچ نے ایران سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ملکی قوانین میں نئی تبدیلیوں کو کالعدم قرار دے کیونکہ یہ خواتین کے حقوق، اُن کے وقار اور صحت کو متاثر کر رہے ہیں اور انہیں تولیدی صحت (reproductive health) اور ان کی معلومات تک رسائی سے روک رہی ہے۔
ایران کے حوالے سے ادارے کی سینیئر محقق تارا سپہری فر نے کہا کہ "ایرانی قانون ساز ملک میں سرکاری شعبوں کی نااہلی، بد عنوانی اور جبر و تشدد جیسے کئی سنجیدہ مسائل سے نمٹنے کے بجائے خواتین سے بنیادی حقوق چھین رہے ہیں۔”
سب سے پہلے مارچ میں پارلیمان کی جانب سے منظور کیے گئے اس متنازع قانون کی یکم نومبر کو شوریٰ نگہبان نے توثیق کی تھی۔ دستخط ہو جانے اور سرکاری گیزٹ میں شائع ہونے کے بعد یہ باقاعدہ قانون بن جائے گا، جو ایک مہینے میں متوقع ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ایران، کم عمری کی شادیوں میں اضافے کا رجحان
یہ قانون بانجھ کاری (sterilization) اور سرکاری طور پر مانع حمل ادویات اور سامان (contraceptives) کی مفت تقسیم کا خاتمہ کرتا ہے، الّا یہ کہ خاتون کی صحت کو خطرہ ہو۔
ہیومن رائٹس واچ کے مطابق اس قانون سے محفوظ اسقاط حمل تک رسائی مزید ختم ہو جائے گی، جو پہلے ہی بہت محدود تھی۔ اس پر یہ قانون خواتین کی جنسی و تولیدی صحت کے حقوق کی بیخ کنی کرتا ہے اور ان کی صحت اور جان کو خطرے میں ڈالتا ہے۔
اس وقت ایران میں حمل کے ابتدائی چار ماہ میں اسقاط کیا جا سکتا ہے، اگر تین ڈاکٹرز تسلیم کریں کہ اس حمل سے خاتون کی زندگی کو خطرہ لاحق ہے یا بچہ شدید جسمانی یا ذہنی معذوری رکھتا ہے جو ماں کے لیے سخت مشکلات کا باعث بن سکتی ہے۔
جواب دیں