دل آرا بیگیوا ایک دہائی تک کیے گئے اپنے شوہر کے مظالم کو یاد کر کے خوف سے پیلا پڑتا نظر آ رہا ہے۔ لیکن آذربائیجانی دارالحکومت باکو کے ایک فلیٹ میں جو کچھ ہوا، وہ کبھی نہیں بھلایا جا سکے گا۔
یہ نومبر کی ایک شام تھی جب وہ باکو میں اپنے 13 ویں منزل پر واقع اپارٹمنٹ میں واپس آیا، پہلے بیگم کو خواب گاہ میں مارا، پھر برآمدے میں اور آخر میں باورچی خانے میں، جہاں سے اس نے بالکنی سے نیچے پھینکنے کی کوشش کی بھی۔
41 سالہ دل آرا جو انگریزی پڑھاتی ہیں، نے بے ہوش ہونے سے پہلے جو آخری منظر دیکھا، وہ یہ تھا کہ ان کی بیٹی فرح باپ سے کہہ رہی تھی "ابو! امی کو مت ماریں۔”
لیکن جب انہیں ہوش آیا تو فرح کہیں نہیں تھی۔ جائے وقوعہ پر پہنچنے والی پولیس نے دل آرا کو اس کی لاش نہیں دکھائی۔ دل آرا بتاتی ہیں کہ اس رات شوہر نے مجھے بالکنی سے نیچے پھینکنے کی کوشش کی تھی، لیکن بعد میں میرے بجائے بچی کو پھینک دیا۔ فون پر بیٹی کی تصویر دکھاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ "وہ میرا سب کچھ تھی،” اور یہ کہتے ہوئے وہ اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکیں۔
یہ بھی پڑھیں: آذربائیجان، خواتین کے قتل کے بڑھتے واقعات کے خلاف انوکھا مظاہرہ
دل آرا ان ہزاروں خواتین میں سے محض ایک ہیں جو آذربائیجان میں گھریلو تشدد کا شکار ہیں۔ قانون سازی کے باوجود زن کشی (femicide) کے بڑھتے واقعات پر انسانی اور خواتین کے حقوق کے کام کرنے والے ادارے مسلسل خطرے کی گھنٹی بجا رہے ہیں۔
سرکاری اعداد و شمار ملک میں گزشتہ سال 71 خواتین اپنے شوہروں یا مرد رشتہ داروں کے ہاتھوں قتل ہوئیں جبکہ رواں سال ابتدائی آٹھ ماہ میں یہ تعداد 48 ہو چکی ہے۔
ایک سیکولر ملک ہونے کے باوجود آذربائیجان میں مردوں کا معاشرہ ہے، خواتین گھریلو کاموں تک محدود ہیں اور معاشرے میں عورتوں پر مظالم کو عموماً برداشت کیا جاتا ہے۔
حکام کے مطابق ہر سال گھریلو تشدد کے تقریباً 2 ہزار کیس رپورٹ ہوتے ہیں، لیکن یہ محض ایک جھلک ہیں کیونکہ مظالم کی شکار بیشتر خواتین خاموش رہنے کو ترجیح دیتی ہیں۔ امور خواتین کی ریاستی کمیٹی کی رکن تالیہ ابراہیمووا کہتی ہیں کہ کئی خواتین اپنے خاندان کے رد عمل کے خوف سے پولیس کو اطلاع نہیں دیتیں۔
یہ بھی پڑھیں: آذربائیجان، نوعمر لڑکی کی خودکشی سے گھریلو تشدد عوامی موضوع بن گیا
حکومت نے گھریلو تشدد سے نمٹنے کے لیے گزشتہ سال ایک چار سالہ ایکشن پلان تیار کیا تھا، جس میں ایک ہاٹ لائن کا قیام اور مظلوم خواتین کے لیے دارالامان کا قیام بھی شامل تھا۔
ابراہیمووا کا کہنا ہے کہ گھریلو تشدد سے نمٹنے کے لیے 2010ء کے قانون کو بہتر بنایا گیا ہے اور جلد ہی گھریلو تشدد مجموعہ تعزیرات (پینل کوڈ) میں ایک علیحدہ جرم بن جائے گا۔
لیکن خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والوں کا کہنا ہے کہ یہ اقدامات کافی نہیں ہیں اور وہ حکومت پر الزام لگاتے ہیں کہ وہ خواتین کو تحفظ دینے میں ناکام رہی ہے۔
خواتین کے حقوق کی معروف کارکن گلنارہ مہدیوا کہتی ہیں کہ آذربائیجان کا سیاسی نظام استبدادانہ نوعیت کا ہے اور حکام نہیں چاہتے کہ شہری اپنے حقوق سے آگاہی حاصل کریں۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ سال مارچ میں انہیں قدامت پسند گروہوں کی جانب سے سخت دباؤ کا سامنا کرنا پڑا، جب خواتین کے حقوق کے حوالے سے شعور اجاگر کرنے کے لیے پہلی ریلی نکالی گئی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: ترکی، گھریلو تشدد کے خلاف خواتین کی مدد کرنے والی سرکاری ایپ
انہوں نے کہا کہ حکومت کی حامی ایک ویب سائٹ نے میری اپنی ایک دوست کے ساتھ گفتگو کی ریکارڈنگز تک لیک کر دی تھیں، تاکہ مجھے ایک گھٹیا کردار رکھنے والی خاتون ظاہر کریں۔ معاشرے میں یہ منفی سوچ عام ہے کہ ہم خاندانی اقدار کو تباہ کرنے والی خواتین ہیں۔
گزشتہ سال امریکی سفارت خانے نے خواتین کے قتل کے بڑھتے واقعات پر تشویش کا اظہار کیا تھا جبکہ برطانوی سفارت خانے نے آذربائیجان پر زور دیا تھا کہ وہ 2011ء کے استنبول کنونشن پر دستخط کرے جو خواتین پر مظالم سے نمٹنے اور گھریلو تشدد کے خاتمے کے لیے ایک عالمی معاہدہ ہے۔ واضح رہے کہ آذربائیجان ان چند ممالک میں سے ایک ہے جس نے اس بین الاقوامی معاہدے کی توثیق نہیں کی۔
اقوام متحدہ کہتا ہے کہ آذربائیجان خواتین کے حقوق کی حالت زار پر درست اعداد و شمار پیش نہیں کرتا، جس میں تنخواہوں میں فرق اور جسمانی و جنسی ہراسگی شامل ہیں۔ البتہ یہ ضرور کہا کہ اس کی پارلیمان میں 18 فیصد نشستیں خواتین کے پاس ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: خاتون کا بھیانک قتل، فرانس میں گھریلو تشدد کرنے والے مشتبہ افراد کا اسلحہ ضبط کرنے کا مطالبہ
ایک وکیل زبیدہ صادقووا کہتی ہیں کہ "پولیس گھریلو تشدد کی شکار خواتین کو سنجیدہ نہیں لیتی بلکہ الٹا انہیں شرمندہ کر کے ذہنی دباؤ میں لاتی ہے۔ کئی خواتین جنہیں میں پولیس کو رپورٹ کرنے کے لیے قائل کرنے کی کوشش کرتی ہوں، بتاتی ہیں کہ ہم پہلے ہی ایسا کر چکے ہیں اور پولیس نے انہیں کہا کہ شوہر کے ساتھ صلح کر لیں، جس کے بعد سے اب تک وہ ہمیں مارتا پیٹتا ہے۔ معاشرے میں زیادہ تر لوگ سمجھتے ہیں کہ خواتین کو گھروں میں رہنا چاہیے اور شوہر بیوی کو مارنے کا حق رکھتا ہے۔”
انہوں نے کہا کہ سرکاری پالیسیوں کا ناقص اطلاق اور قانون سازی میں سقم بڑے مسائل ہیں۔ "حکومت کو ان قانونی خامیوں کا خاتمہ کرنا ہوگا، شعور اجاگر کرنے کی مہم شروع کرنا ہوگی اور خواتین کو نفسیاتی اور عدالتی مدد تک رسائی دینے کو یقینی بنانا ہوگا۔”
دل آرا بتاتی ہیں کہ ابتدا میں تو ان کے شوہر پر صرف بیوی کو مارنے پیٹنے کا الزام لگایا گیا تھا اور بچی کی موت کو خود کشی قرار دیا گیا۔ لیکن اب اس پر قتل کے الزامات بھی لگائے جا چکے ہیں۔ حکومت سے انصاف کا تقاضا کرتے ہوئے دل آرا نے کہا کہ "میں اپنی آخری سانس تک لڑوں گی، انصاف حاصل کر کے رہوں گی تاکہ سچ سب کے سامنے آ جائے۔”
Pingback: ارجنٹینا، ایک سال میں 250 خواتین کا قتل، یعنی ہر 35 گھنٹے میں ایک - دی بلائنڈ سائڈ