خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والے ایک ادارے نے گمراہ کُن اطلاعات، نفرت انگیز گفتگو، ہراسگی اور زن بیزاری (misogyny) کے حوالے سے مشہور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کی ایک درجہ بندی جاری کی ہے، جس میں کسی کی کارکردگی حوصلہ افزا نظر نہیں آتی بلکہ انسٹا گرام تو سب سے آخری نمبر پر موجود ہے۔
’الٹرا وائلٹ’ نامی اس ادارے نے یہ رپورٹ انسٹیٹیوٹ آف اسٹریٹجک ڈائیلاگ کی مدد سے جاری کی ہے، جس میں فیس بک، انسٹا گرام، ٹک ٹاک، ٹوئٹر، ریڈِٹ اور یوٹیوب کا جائزہ لیا گیا ہے کہ وہ الٹرا وائلٹ کی 11 پالیسی سفارشات کی بنیاد پر کیسی کارکردگی رکھتے ہیں۔ اس کے بعد ہر پلیٹ فارم کو مختلف گریڈ دیے گئے ہیں۔
توقعات اور خدشات کے عین مطابق کسی ادارے نے ‘اے گریڈ’ حاصل نہیں کیا بلکہ انسٹا گرام تو بد ترین کارکردگی کے ‘ایف’ گریڈ لایا ہے۔ ریڈٹ کا اسکور ان میں سب سے زیادہ رہا، لیکن وہ بھی سی گریڈ سے زیادہ حاصل نہیں کر سکا۔
یہ بھی پڑھیں: خواتین کو بلیک میلنگ، اور موت، سے بچانے والا فیس بُک پیج
ادارے کی کمیونی کیشنز ڈائریکٹ بریجٹ ٹوڈ کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا آج کی زندگی کا ایک اہم حصہ ہے۔ رابطہ سازی میں اہم کردار ادا کرنے کے باوجود ہم ان اداروں کو کھلی چھوٹ نہیں دے سکتے کہ وہ جھوٹ اور سازشی نظریات پھیلائیں یا نسل پرستی، زن بیزاری اور ایسے ہی دیگر جرائم کو ٹھنڈے پیٹوں ہضم کریں۔
رپورٹ کارڈ پر واحد دو ‘اے گریڈز’ ریڈٹ اور ٹوئٹر نے انفرادی زمرے میں حاصل کیے ہیں، جو انہیں صارفین کو کوئی مواد رپورٹ کرنے کی اجازت دینے پر ملے ہیں۔ لیکن اپنے صارفین کو شدت پسندانہ مواد سے بچانے میں ناکامی کے ساتھ ساتھ انسانوں کے ذریعے چلنے والی ہیلپ ڈیسک کی عدم موجودگی اور آن لائن جنسی مظالم کا سامنا کرنے والوں کو تحفظ دینے میں ناکامی کی وجہ سے ٹوئٹر کا اسکور گرتے ہوئے ‘ایف گریڈ’ تک آیا ہے۔ انسٹا گرام، یوٹیوب اور ٹک ٹاک بھی اس معاملے میں ایف گریڈ کے زمرے میں ہی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: ٹوئٹر پر گھٹیا ٹرینڈز، صحافیوں کے بعد ذہنی بیماروں کا اگلا شکار خواتین سیاست دان
رپورٹ پیش کرنے کے ساتھ ساتھ الٹرا وائلٹ نے ان تمام سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے چیف ایگزیکٹو آفیسرز کو ایک کھلا خط بھی لکھا ہے، جس میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ ان پالیسیوں کا فوری اطلاق کریں تاکہ پسماندہ گروہوں کو تحفظ دیا جا سکے۔ الٹرا وائلٹ کے کھلے خط پر 75 دیگر بین الاقوامی انجمنوں کے دستخط بھی موجود ہیں۔
پسماندہ طبقات مثلاً سیاہ فاموں، مقامی لوگوں، غیر سفید فام خواتین اور دیگر کو انٹرنیٹ پر نسل پرستانہ اور زن بیزارانہ حملوں کا سامنا ہے۔ ان اداروں – الفابیٹ، فیس بک، ٹوئٹر، بائٹ ڈانس، ٹک ٹاک اور ریڈٹ – کے اقدامات نے ظاہر کیا ہے کہ ان کی توجہ اپنے صارفین کو محفوظ بنانے سے کہیں زیادہ اپنا منافع بڑھانے پر ہے۔
بہرحال، ان اداروں کی جانب سے الٹرا وائلٹ کی سفارشات پر عمل کرنے کا امکان تو بہت کم ہے لیکن پھر بھی ان سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر اس طرح کا دباؤ انٹرنیٹ کو ایک بہتر مقام ضرور بنا سکتا ہے۔
جواب دیں