دنیا کے مختلف معاشروں کو جن مسائل کا سامنا ہے ان میں سے ایک نمایاں خواتین پر تشدد ہے کہ جس کی شرح بہت خطرناک حد تک بڑھ گئی ہے، گو کہ عوامی مقامات خواتین کو تحفظ دینے اور با اختیار بنانے کے لیے کافی اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں، لیکن گھروں میں وہ اب بھی تشدد کی زد پر ہیں۔ چار دیواری کے اندر ہونے والے گھریلو تشدد کو عرصہ دراز سے نظر انداز کیا جا رہا ہے اور اب حکام اس گمبھیر مسئلے سے نمٹنے کے لیے آگے آ رہے ہیں، جس کی وجہ سے خاص طور پر مشرق وسطیٰ میں خواتین کی بڑی تعداد خطرے کی زد میں ہے۔
رواں سال کے اوائل میں متحدہ عرب امارات میں گریلو تشدد کا سامنا کرنے والی خواتین کی مدد کے لیے ایک ایپ لانچ کی تھی لیکن اس سے کہیں پہلے ترکی میں حکام نے اپنے شوہروں کے ظلم کی شکار خواتین کی مدد کے لیے ڈجیٹل ذرائع کی صلاحیتیں سمجھ لیں تھیں۔
یہ بھی پڑھیں: ترکی، مشہور ریپ کیس میں مجرم کو قید کی طویل سزا
ترک وزارت داخلہ نے تقریباً تین سال پہلے ویمنز ایمرجنسی اسسٹنس نوٹیفکیشن سسٹم نامی ایپ لانچ کی تھی، جس کا مقصد گھریلو تشدد کے کسی واقعے پر حکام کو مطلع کرنا تھا۔ گھروں میں تشدد کا سامنا کرنے والی خواتین کو ضرورت ہوگی اسمارٹ فون پر دستیاب اس ایپ کو بطور ‘پینِک بٹن’ استعمال کرنے کی، اور پانچ منٹ سے بھی کم وقت میں قانون نافذ کرنے والے اہلکار وہاں پہنچ جائیں گے۔
گھریلو تشدد کرنے والے جن افراد کو محدود رکھنے کا حکم دیا گیا ہے، انہیں بھی حکام کی جانب سے ایک الیکٹرانک بریسلٹ کے ذریعے ٹریک کیا جاتا ہے۔ اس ایپ کی بدولت، جو اب تک 26 لاکھ سے زیادہ بار ڈاؤنلوڈ ہو چکی ہے، تقریباً 2,27,936 خواتین اب تک پولیس کو ہنگامی کالز کر کے مدد حاصل کر چکی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: خواتین کو با اختیار بنانے کے عمل کو تبدیلی اور نئے حلوں کی ضرورت
تین سال مین لاکھوں خواتین کو مؤثر انداز میں مدد دینے کے باوجود ترکی میں اکتوبر میں 18 خواتین کا قتل ہوا۔ بسا اوقات خواتین کوئی شکایت کرتے ہوئے گھبراتی ہیں کیونکہ انہیں ظلم بڑھنے کا خدشہ ہوتا ہے۔
مشرق وسطیٰ میں متحدہ عرب امارات جیسے ممالک گھریلو تشدد پر چھ ماہ تک قید کی سزا رکھتے ہیں۔ جبکہ ترکی میں ایسے مظالم سے خواتین کو تحفظ دینے کے لیے ایک وزارت کے قیام کی تجویز پر غور کیا جا رہا ہے۔
Pingback: گھریلو تشدد کے خلاف ایپ کی مدد سے خاتون کی جان بچا لی گئی - دی بلائنڈ سائڈ