‏’افغانستان کی ملالہ’ کا طالبان سے لڑکیوں کے اسکول کھولنے کا مطالبہ کامیاب ہو گیا

‏15 سالہ ستودہ فروتن نے میلاد النبیؐ کے جلسے میں طالبان رہنماؤں سے یہ مطالبہ کیا تھا

ایک نو عمر لڑکی کو ‘افغانستان کی ملالہ’ کہا جا رہا ہے جس نے مغربی افغانستان میں لڑکیوں کے ثانوی اور اعلیٰ تعلیم کے ادارے دوبارہ کھولنے پر طالبان حکام کو کامیاب سے آمادہ کیا۔

ملک میں طالبان کا اقتدار قائم ہونے کے بعد پہلی بار ہرات میں لڑکیاں اپنے تعلیمی اداروں میں واپس آئی ہیں۔ ساتویں اور اس سے نچلی جماعت کی طالبات کو تو ستمبر ہی میں اجازت مل گئی تھی۔

‏15 سالہ ستودہ فروتن کا تعلق ہرات سے ہے اور ان میں ملالہ یوسف زئی میں کئی مماثلتیں پائی جاتی ہیں۔ ملالہ کو اکتوبر 2012ء میں تحریکِ طالبان پاکستان کے جنگجوؤں نے لڑکیوں کی تعلیم کی حمایت اور اس کے خلاف بات کرنے والے طالبان کی مخالفت پر گولی مار دی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: لڑکیوں کی تعلیم کی راہ میں حائل رکاوٹیں دُور کرتی افغان خاتون

فروتن نے بھی ایسا ہی دلیرانہ مطالبہ کیا لیکن نتائج ذرا مختلف آئے۔ 21 اکتوبر کو جب ہرات میں میلاد النبیؐ منایا جا رہا تھا، انہوں نے ایک تقریب کے دوران ایک نظم پڑھنی تھی لیکن انہوں نے اس کے بجائے ایک مختصر سی تقریر کی جس میں طالبان سے مطالبہ کیا گیا کہ لڑکیوں کی ثانوی اور اعلیٰ تعلیم کے ادارے کھولے جائیں۔

آج لڑکیوں کی نمائندہ کی حیثیت سے میں ایک پیغام آپ تک پہنچانا چاہتی ہوں۔ ہم سب جانتے ہیں کہ ہرات علم کا شہر ہے، تو یہاں لڑکیوں کے تعلیمی ادارے کیوں بند ہوں؟

وہ تقریباً 200 افراد کے ایک اجتماع سے بات کر رہی تھیں جبکہ ان کے سامنے موجود مائیکروفون کے ساتھ ہی طالبان کا پرچم بھی موجود تھا۔

اس موقع پر چند طالبان رہنما بھی موجود تھے، جنہوں نے اس تقریر کو سراہا۔

یہ بھی پڑھیں: لڑکیوں کی ثانوی تعلیم کا سلسلہ جلد بحال کیا جائے گا، طالبان

یہ وڈیو کلپ سوشل میڈیا پر بھی کافی پھیلا اور روس کے خبر رساں ادارے اسپتنک سمیت کئی اداروں نے اسے پھیلایا۔

وڈیو وائرل ہو جانے کے بعد ایک انٹرویو میں فروتن نے کہا کہ میں کئی خواتین اور بچوں کی آواز تھی، لیکن طالبان کے آنے کے بعد میں خاموش اور پریشان تھی کہ میرے مستقبل کے اہداف کا کیا ہوگا۔ اس لیے میں نے یہ بات کرنے کا فیصلہ کیا۔

دسویں جماعت کی طالبہ کہتی ہیں کہ جب وہ اسٹیج پر کھڑی تھیں تو ان کے ذہن میں والدہ کے وہ آنسو تھے جو 14 سال تک تدریس کے شعبے سے وابستہ رہنے کے بعد اپنی ملازمت کھونے پر بہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ

میرے ذہن میں اپنی ہم جماعتوں اور ان کے ٹوٹے خواب بھی تھے۔ ان سب سے مجھے یہ حوصلہ دیا کہ میں طالبان حکام کے سامنے اپنی آواز بلند کروں۔ یہ میری نہیں بلکہ پوری قوم کی آواز تھی۔

فروتن نے کہا کہ وہ افغانستان کی پہلی خاتون وزیر خارجہ بننا چاہتی ہیں۔ وہ کامیاب خواتین کی آپ بیتیاں پڑھتی ہیں اور اپنے خوابوں کی تعبیر پانے کے لیے محنت کرتی ہیں۔ "میں تو خواب بھی یہی دیکھتی ہوں کہ میں کس یونیورسٹی میں داخلہ لوں گی اور کون سا کام کروں گی۔”

افغانستان کا مغربی صوبہ ہرات ایران کے ساتھ ملتا ہے، جہاں کے خبر رساں اداروں نے بتایا ہے کہ ہرات میں لڑکیوں کے ثانوی اور اعلیٰ تعلیمی ادارے کھل چکے ہیں۔ البتہ ملک کے دیگر صوبوں میں لڑکیوں کے ثانوی اسکول اب بھی بند ہیں۔

 

One Ping

  1. Pingback: نیشنل جیوگرافک میگزین کی زینت بننے والی 'افغان گرل' اٹلی ہجرت کر گئی - دی بلائنڈ سائڈ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے