پاکستان ایشیا میں چھاتی کے سرطان (بریسٹ کینسر) کی سب سے زیادہ شرح رکھنے والے ممالک میں شامل ہے اور رجحانات سے ظاہر ہوتا ہے کہ اگر ابتدائی تشخیص کی راہ میں حائل رکاوٹوں کا خاتمہ نہ کیا گیا تو اس میں مزید اضافے کا خدشہ ہے۔
شوکت خانم ریسرچ سینٹر، لاہور کے مطابق پاکستان میں ہر سال تقریباً 40,000 خواتین چھاتی کے سرطان سے وفات پا جاتی ہیں جبکہ 83,000 میں اس مرض کی تشخیص ہوتی ہے۔
صحت کے ماہرین شرحِ اموات اتنی زیادہ ہونے کی وجہ تشخیص اور علاج کے مراکز کی کمی کو قرار دیتے ہیں۔
گو کہ صحت کی بہتر سہولیات کا قیام ایک اہم قدم ہے، لیکن سماجی عوامل بھی پاکستان میں چھاتی کے سرطان کے مسئلے کی اہم وجہ ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: کینسر میں مبتلا 44 فیصد خواتین سینے کے سرطان کی شکار
شوکت خانم کی تحقیق کے مطابق چند خواتین اپنی صحت کے مسائل دوسرے کے سامنے پیش نہیں کرتیں اور چھاتی کا معائنہ کرنے یا کروانے میں شرماتی ہیں۔
اسلام آباد پولی کلینک ہسپتال میں چھاتی کے سرطان کی ماہر ارم خان کا کہنا ہے کہ پاکستان کا مردانہ (patriarchal) کلچر اور خواتین کے جسم کے حوالے سے ممنوعات (taboos) چھاتی کے سرطان کی دیر سے تشخیص کی بنیادی وجوہات ہیں۔
انہوں نے کہا کہ جو خواتین تشخیص اور علاج کروانا چاہتی ہیں تو انہیں لعن طعن کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ ایک واقعے میں ایک مریضہ یہ بتاتے ہوئے رو پڑی کہ علاج کے بعد جب اس کی چھاتیاں نکال دی گئیں تو شوہر نے اسے کہا اب تو مرد بن گئی ہو۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان میں ہر سال ایک لاکھ خواتین چھاتی کے سرطان کا شکار
خواتین کے حقوق کی علم بردار مختاراں مائی کہتی ہیں کہ
"شادی شدہ خواتین سمجھتی ہیں کہ اگر ان کے شوہروں کو ان کی بیماری کے بارے میں پتہ چلا تو ہو سکتا ہے وہ دوسری شادی کر لیں۔ غیر شادی شدہ خواتین سمجھتی ہیں کہ صرف تشخیص کے لیے جانے کی خواہش کا اظہار ان کی شادی کے امکانات کو کم کر دے گا۔
آن لائن جریدے بی ایم سی ویمنز ہیلتھ میں شائع ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق بر وقت تشخیص چھاتی کے سرطان کی خطرناک صورت سے بچنے کے لیے بہت اہم ہے۔
پاکستان میں خواتین بر وقت علاج کی خواہش ظاہر کرنے پر بدنامی مول لے سکتی ہیں، خاص طور پر معالج صرف مرد ڈاکٹر ہو۔
تحقیق کہتی ہے کہ نتیجتاً پاکستان میں 89 فیصد چھاتی کے سرطان کی تشخیص تاخیر سے اور 59 فیصد کی بالکل آخری مراحل میں ہوتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: چھاتی کے سرطان کے حوالے سے شعور اجاگر کرنے کے لیے خصوصی ویب پیج
ارم خان کا کہنا ہے کہ خواتین کو اس موذی مرض سے بچانے میں مدد کے لیے ملک میں چھاتی کے سرطان کی ماہر خواتین کی تعداد بڑھانا، خواتین کے کالجوں میں شعور اجاگر کرنے اور ماہرین امراضِ نسواں اور خواتین ہیلتھ ورکرز کی تربیت کرنے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ خواتین میں ایک غلط فہمی یہ بھی ہے کہ اس مرض کی تشخیص ہو جانے کے بعد علاج صرف سرجری ہے۔ لیکن بہت سی خواتین نہیں جانتیں کہ پہلے اور دوسرے مرحلے کے سرطان میں سرجری کی بالکل ضرورت نہیں ہوتی۔
50 سالہ وحیدہ نیّر کو دو سال پہلے چھاتی کے سرطان کی تشخیص ہوئی تھی، اور وہ اس کا بر وقت علاج کروانے میں کامیاب ہوئیں۔ ان کا کہنا ہے کہ پاکستان کی بیشتر خواتین اتنی خوش قسمت نہیں ہیں۔ جہالت، توہمات اور ثقافتی عوامل کی وجہ سے خواتین جان سے جا رہی ہیں۔
کراچی سے تعلق رکھنے والی وحیدہ نے بتایا کہ
"میری ملاقات ایسی کئی خواتین سے ہوئی کہ جو جھجک اور شرم کی وجہ سے اپنا جسمانی معائنہ نہیں کروانا چاہتیں۔ جب میں نے دیر سے تشخیص کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا کہ انہیں چھاتی کے سرطان کے بارے میں بات کرتے ہوئے شرم آتی تھی۔”
ان کی صاحبزادی نمرہ جنہیں اپنی والدہ کے علاج کے لیے بارہا ہسپتالوں کے چکر لگانا پڑے، کہتی ہیں کہ دیہی خواتین نے انہیں بتایا کہ وہ سوچ بھی نہیں سکتیں کہ اپنے مرد رشتہ داروں کو اس مرض کے بارے میں بتائیں۔ جبکہ میری والدہ نے میرے بھائی اور مجھے بتایا۔
انہوں نے کہا کہ اسٹیج 3 کی کئی مریضہ ایسی تھیں جن کا کہنا تھا کہ ان کی کوئی خاتون رشتہ دار نہیں کہ جس کے سامنے وہ اپنے خدشات بیان کر سکیں۔ وہ اس بارے میں اپنے بیٹوں یا خاندان کے دیگر مردوں کو بتانے سے شرما رہی تھیں۔
خواتین کے حقوق کی کارکن مختاراں مائی نے کہا کہ ان کی 46 سالہ عزیزہ رواں سال کے اوائل میں چھاتی کے سرطان کی وجہ سے انتقال کر گئیں۔ وہ اس بارے میں کسی مرد ڈاکٹر کو دکھانے سے گھبرا رہی تھیں اور مرض کی تشخیص تب ہوئی جب کافی دیر ہو چکی تھی۔
انہوں نے کہا کہ دیہی علاقوں میں تو خواتین مذہبی رہنماؤں سے مشورہ طلب کرتی ہیں جو انہیں کہتے ہیں کہ چھاتی کے سرطان کا معائنہ مرد ڈاکٹروں سے نہیں کروانا چاہیے۔
اس سے مرض کی تشخیص میں تاخیر ہوتی ہے یہاں تک کہ علاج کا وقت نکل جاتا ہے۔
جواب دیں