خواتین صحافیوں کے خلاف دھمکیاں وبائی صورت اختیار کر گئیں

پاکستان میں ٹوئٹر کی 11.8 فیصد صارفین خواتین ہیں، لیکن نفرت انگیزی کے سامنے میں وہ غالباً 99 فیصد ہوں گی

وہ ہسپتال کے انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں اپنی آخری سانسیں لے رہی تھیں۔ ڈاکٹر ان کی زندگی بچانے کی کوششیں کر رہے تھے لیکن وہاں موجود چند کیمرہ تھامے افراد کو پتہ تھا کہ یہ زندگی کے آخری لمحات ہیں اور انہوں نے اسے اپنی "بریکنگ نیوز” کے لیے فلمانا بہتر سمجھا۔

یہ 18 سالہ انعم بھٹی تھیں، جو صحافی بننے کے لیے بہت پُر عزم تھیں۔ دو سال پہلے انہوں نے ساہیوال کے ایک ویب چینل ‘سینٹر نیوز’ میں کام کا آغاز کیا لیکن اس طرح ٹی وی پر آمد نے ان کے لیے کئی مسائل کھڑے کر دیے اور انہیں سخت تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ اس وجہ سے منگنی ٹوٹ گئی اور خاندان کے دباؤ اور سوشل میڈیا پر اپنے کردار پر انگلیاں اٹھنے کے بعد ایک روز انعم نے خود کشی کر لی۔

دسمبر 2020ء میں جاری ہونے والی ٹوئٹر رپورٹ کے مطابق 2018ء کے ابتدائی چھ ماہ میں پاکستانی حکام نے مبینہ طور پر نفرت انگیز مواد پھیلانے اور تشدد پر اکسانے کی وجہ سے 3,004 اکاؤنٹس رپورٹ کیے۔

یہ بھی پڑھیں: ایک سال میں 62 صحافیوں کا قتل، خواتین صحافیوں کو لاحق نئے خطرات

گزشتہ سال پاکستان ٹیلی کمیونی کیشن اتھارٹی (PTA) نے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کو بتایا تھا کہ فیس بک، یوٹیوب اور دوسرے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز تو نازیبا مواد کو روکنے کی حکومت کی درخواستوں پر عمل کر رہے ہیں، لیکن ٹوئٹر اس کی پابندی نہیں کر رہا۔ اس پر حکومت نے ٹوئٹر کو بند کرنے کی دھمکی دی، جس پر کمپنی نے ہتھیار ڈال دیے۔

لیکن پاکستان میں سب سے زیادہ استعمال ہونے والا سوشل میڈیا پلیٹ فارم فیس بک ہے۔ جنوب مشرقی پنجاب میں لوگوں نے علاقے کی خبروں سے آگاہی اور تفریح کے لیے یوٹیوب کے ساتھ ساتھ فیس بک پر پیجز بھی بنائے ہیں۔ ساہیوال میں 15 سے زیادہ ایسے فیس بک و یوٹیوب چینلز ہیں جن پر نوجوان مقامی خبروں اور مقامی ٹیلنٹ کو سامنے لانے کے لیے کام کر رہے ہیں، لیکن بد قسمتی سے ان سے منسلک افراد کے تحفظ کے حوالے سے کچھ نہیں ہے۔

معاملہ صرف مقامی چھوٹے موٹے چینلوں تک محدود نہیں۔ پاکستان کے مین اسٹریم میڈیا پر بھی حالات مختلف نہیں ہیں۔ 2020ء میں جب کرونا وائرس سے تحفظ کے لیے معروف تجزیہ کار غریدہ فاروقی نے دو ماسکس کی تصویریں ٹوئٹر پر لگائی تھیں تو انہیں بد ترین تضحیک کا نشانہ بنایا گیا۔ ان کے خلاف ایک منظم، باقاعدہ منصوبہ بندی کے ساتھ ایک غلیظ مہم شروع کی گئی اور رواں سال ستمبر میں ایک مرتبہ پھر ان کے خلاف گھٹیا ٹرینڈز ٹوئٹر پر نظر آئے۔ غریدہ نے گزشتہ سال ثبوتوں کے ساتھ بتایا تھا کہ کسی نے ان کا ٹوئٹر اکاؤنٹ ہیک کرنے کی کوشش کی ہے اور چند نامعلوم افراد نے انہیں دھمکایا بھی ہے۔ غریدہ نے پچھلے سال ثبوت کے ساتھ بتایا تھا کہ کسی نے ان کا ٹوئٹر اکاؤنٹ ہیک کرنے کی کوشش کی ہے اور انہیں نامعلوم افراد نے دھمکایا بھی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان کی غیر محفوظ خواتین صحافی

ایک اور سماجی کارکن ماروی سرمد ہیں کہ جنہیں روزانہ بد ترین ٹرولنگ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔2020ء میں کسی نے ان کا اکاؤنٹ ہیک کرنے کی بارہا کوشش کی۔ وہ اب بھی آن لائن بدمعاشوں کی "ہٹ لسٹ” پر ہیں اور انہیں ہراساں کرنے کا عمل جاری و ساری ہے۔

پاکستان میں ٹوئٹر کے کُل صارفین کا 11.8 فیصد خواتین پر مشتمل ہے، لیکن نفرت انگیزی کا سامنا کرنے والوں میں غالباً ان کی شرح 99 فیصد ہوگی، خاص طور پر اگر وہ صاف گو اور بے باک ہیں۔

جیو نیوز کی ایک رپورٹر بے نظیر شاہ نے بتایا کہ میں نے کووِڈ-19 سے پہلے کبھی اتنی ٹرولنگ اور آن لائن گالم گلوچ کا سامنا نہیں کیا۔ انہیں سرکاری اہلکاروں اور ان کے پیروکاروں کی جانب سے مسلسل بد ترین تنقید کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ انہوں نے کرونا وائرس کے حوالے سے سرکاری اعداد و شمار پر سوال اٹھایا تھا۔

"جب کوئی سرکاری وزیر یا اہلکار آپ پر الزام لگاتا ہے تو اس کے بعد فوراً گالم گلوچ کا ایک آن لائن سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ حکمران جماعت کے چند اراکین نے تو میرے فیس بک اکاؤنٹ سے میری تصویریں اٹھائیں اور انہیں ٹوئٹر پر شیئر کرنا شروع کر دیا۔ انہوں نے مجھے پر الزام لگایا کہ میں نے حکومت کو بدنام کرنے کے لیے حزب اختلاف سے پیسے لیے ہیں۔ میں کئی ہفتے ان کی زد پر رہی۔ آج یہ عالم ہے کہ یہ صحافیوں کو ٹیگ کر کے کہتے ہیں کہ یہ "جعلی خبریں” پھیلاتے ہیں اور یوں ہم حملوں کی زد میں آ جاتے ہیں۔”

فریحہ عزیز ایک صحافی اور مقامی سول سوسائٹی انجمن "بولو بھی” کی بانی ہیں۔ اس ادارے کا کام ڈجیٹل حقوق اور شہری ذمہ داریوں پر کام کرنا ہے۔ وہ اتفاق کرتی ہیں کہ آن لائن حملے، خاص طور پر خواتین صحافیوں کے خلاف، بہت زیادہ بڑھ گئے ہیں بلکہ اب بہت منظم انداز میں ہو رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اب تو یہ عالم ہے کہ ایسے ٹوئٹ آفیشل اکاؤنٹس سے بھی کیے جا رہے ہیں۔ خواتین کو عرصے سے ایسے مسائل کا سامنا تھا لیکن اب ان حملوں کی مستقل نوعیت اور شدت بہت بڑھ چکی ہے اور یہی وجہ ہے کہ خواتین صحافی اس پر بات کرنے پر مجبور ہو گئی ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: ٹوئٹر پر گھٹیا ٹرینڈز، صحافیوں کے بعد ذہنی بیماروں کا اگلا شکار خواتین سیاست دان

آزادئ صحافت کے حوالے سے معروف ادارے ‘رپورٹر وِد آؤٹ بارڈرز’ (RSF) پاکستانی حکام سے درخواست کر چکا ہے کہ وہ خواتین صحافیوں کو آن لائن ہراساں کرنے کی کوششوں کو روکنے کے لیے فوری اقدامات اٹھائے، کیونکہ یہ ان کی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں اور زندگی کو خطرات سے دوچار کر رہی ہیں۔

پیرس میں قائم ادارے کا یہ بیان اس وقت آیا تھا جب گزشتہ سال اگست میں پاکستان کی 50 خاتون صحافیوں نے ایک مشترکہ بیان جاری کیا تھا۔ تب انہیں سوشل میڈیا پر ہراساں کرنے کی با ضابطہ مہم چلائی گئی تھی جس میں گالم گلوچ اور دھمکیاں تک شامل تھیں۔

خواتین کو ہراساں کرنے کے طریقوں میں ریپ اور جسمانی تشدد کی دھمکیاں، ان کی ذاتی تفصیلات جاری کرنا اور صنفی بنیاد پر تذلیل کرنا شامل ہیں۔ آن لائن بدمعاشی کا مقصد صحافیوں کو دھمکانا اور ان کی ساکھ ختم کرنا ہے، جس میں انہیں "جعلی خبریں” پھیلانے والا اور "عوام کا دشمن” قرار دیا جاتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: خاتون صحافیوں کے خلاف پُرتشدد رویّہ، آن لائن کے بعد اب آف لائن بھی

میڈیا سے وابستہ خصوصاً سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر متحرک خواتین کے لیے اب سوشل میڈیا کا استعمال ناقابلِ برداشت ہو چکا ہے یعنی وہ خود بھی آزادئ رائے کے حق سے محروم ہو رہی ہیں اور عوام کو معلومات فراہم کرنے سے بھی قاصر ہیں۔

کوالیشن فار ویمن ان جرنلزم (WFWIJ) نے 2020ء کے آغاز سے اب تک پاکستان میں خواتین صحافیوں کو دھمکیوں اور تشدد کے کم از کم 11 کیس رپورٹ کیے ہیں۔ ان میں کام کی جگہ پر ہراساں کرنے سے لے کر سیاسی معاملات، حکومت کے وبا سے نمٹنے کے لیے اٹھائے گئے اقدامات اور نتیجتاً پیدا ہونے والے سماجی چیلنجز پر بات کرنے والی صحافیوں کو ریپ اور قتل کی آن لائن دھمکیاں تک شامل ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان، ڈجیٹل میڈیا کی آزادی پر قدغنیں، خواتین بُری طرح متاثر

اس ادارے کی بانی کرن نازش کے مطابق تو یہ دھمکیاں محض آن لائن نہیں ہیں، بلکہ ان پر عمل کر کے بھی دیکھا گیا۔ "ہماری رکن اور صحافی عاصمہ شیرازی کو سابق وزیر اعظم نواز شریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز کا انٹرویو کرنے پر آن لائن سخت تنقید کا سامنا بنایا گیا۔ اس کے بعد دو مرتبہ کوئی اُن کے گھر میں بھی کوئی داخل ہوا۔ یہ دھمکیاں کتنی سنجیدہ ہیں؟ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ چند خواتین صحافیوں سے ان کے خاندانوں نے پیشہ چھوڑ دینے کا مطالبہ کیا ہے۔

اب تو حکومت ایک متنازع قانون بھی متعارف کروا چکی ہے، جو بظاہر سوشل میڈیا پر دہشت گردی، شدت پسندی، نفرت انگیزی، جعلی خبروں اور اُکسانے کے خلاف آن لائن مواد کو گھٹانے کے لیے بنایا گیا ہے لیکن اس کی بدولت سوشل میڈیا کمپنیاں صارفین کا ڈیٹا اور معلومات حاصل کر سکتی ہیں۔ ‘بولو بھی’ کے مطابق یہ میڈیا جرنلزم کی حوصلہ شکنی کی کوشش ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے