افغانستان میں چار خواتین کا قتل، ایک حقوقِ نسواں کی معروف کارکن نکلیں

طالبان ترجمان نے مزار شریف میں چار خواتین کے قتل کی تصدیق کی ہے

شمالی افغانستان کے شہرمزارِ شریف میں چار خواتین قتل کر دی گئی ہیں، جس کی تصدیق ہفتے کو افغانستان کی طالبان حکومت نے بھی کی ہے جبکہ مقامی ذرائع کے مطابق ان میں سے کم از کم ایک خواتین کے حقوق کے لیے کام کرتی تھیں۔

وزارت داخلہ کے ترجمان قاری سید خوستی نے بتایا ہے کہ ایک گھر سے چار لاشیں برآمد ہونے کے بعد اب تک دو مشتبہ افراد کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔ انہوں نے کہا ک کہ "گرفتار شدگان نے ابتدائی تفتیش میں بتایا ہے کہ خواتین کو انہوں نے اس گھر پر مدعو کیا تھا۔ مزید تحقیقات جاری ہیں اور معاملہ عدالت تک جائے گا۔”

قاری خوستی نے خواتین کی شناخت ظاہر نہیں کی لیکن ذرائع کا کہنا ہے کہ ان میں سے ایک خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی اور یونیورسٹی کی لیکچرر فروزاں صافی ہیں۔ ذرائع کے مطابق خواتین کو ایک کال آئی تھی جو ملک سے فرار ہونے کی ایک پرواز میں جانے کا دعوت نامہ سمجھی گئی اور بعد ازاں انہیں لینے کے لیے ایک گاڑی بھی آئی، لیکن پھر ان کی لاشیں ہی ملیں۔

یہ بھی پڑھیں: افغانستان میں بے امنی، خواتین اور بچوں کی اموات میں اضافہ

ایک بین الاقوامی ادارے کی خاتون رکن نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اے ایف پی کو بتایا کہ میں ان میں سے ایک خاتون فروزاں کو جانتی ہوں۔ وہ خواتین کے حقوق کی کارکن تھیں اور شہر میں کافی معروف تھیں۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ اس خاتون رکن کو بھی تین ہفتے قبل اسے بھی ایک شخص کی کال آئی تھی جس میں کسی نے انہیں بھی بیرونِ ملک فرار کروانے میں مدد کی پیشکش کی تھی۔ خاتون کے مطابق "اسے میرے بارے میں سب کچھ پتہ تھا، اس نے مجھ سے کہا کہ میں اپنی دستاویزات بھیجوں اور ایک سوالنامہ بھی حل کروں، اس نے ظاہر یہ کیا کہ میرے دفتر کے کسی عہدیدار نے اسے مجھے نکالنے کے لیے امریکا کو یہ معلومات دی ہیں۔”

شک و شبے کے بعد خاتون نے کال کرنے والے کا نمبر بلاک کر دیا اور اب خوف میں زندگی گزار رہی ہیں۔ انہیں اس طرح خواتین کے قتل پر سخت صدمہ بھی پہنچا ہے۔ "میں پہلے ہی ڈری ہوئی تھی۔ ذہنی صحت کچھ خاص نہیں، ہر وقت یہ کھٹکا لگا رہتا ہے کہ کوئی دروازے پر آئے گی اور مجھے لے جا کر گولی مار دے گا۔”

یہ بھی پڑھیں: افغانستان میں تین خواتین صحافی قتل کر دی گئیں

‏20 سال تک امریکا سے جنگ کے بعد اگست میں افغانستان پر دوبارہ اقتدار حاصل کرنے والے طالبان کے آخری دور میں خواتین پر بہت پابندیاں لگائی گئی تھیں اور یہی وجہ ہے کہ ان کے آتے ہی انسانی اور خواتین کے حقوق کی کئی کارکنان ملک چھوڑ گئی ہیں۔

چند خواتین جو اب بھی ملک میں موجود ہیں، دارالحکومت سمیت مختلف شہروں میں اپنے حقوق کے لیے مظاہرے کر رہی ہیں اور ان کا مطالبہ ہے کہ انہیں تعلیم اور کام کے مواقع دیے جائیں۔ گو کہ ایسے چند مظاہروں سے سختی سے نمٹا گیا ہے لیکن طالبان کا اب بھی کہنا ہے کہ ان کے جنگجوؤں کو اجازت نہیں کہ وہ کسی کارکن کو قتل کریں اور انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ ایسی حرکت کرنے والوں کو سخت سزا دی جائے گی۔

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے