ریپ کی شکار خواتین کے لیے اپنا فون پولیس کے حوالے کرنا ضروری نہیں رہا

اپنے ساتھ ہونے والے مظالم کو بیان کرنا ہی کسی ذہنی صدمے سے کم نہیں، پھر اپنے فونز پر موجود تمام ڈیٹا کسی کے حوالے کرنے کا خوف الگ

حکومتِ برطانیہ نے بالآخر لیبر پارٹی کے اس مطالبے کو تسلیم کر لیا ہے جس کے تحت ریپ کا نشانہ بننے والی خواتین کو تحفظ دینے کی بات کی گئی ہے۔

دار الامراء (ہاؤس آف لارڈز) ان نئے قوانین پر غور کر رہا ہے جو ریپ کا نشانہ بننے والوں کو تحفظ دے گا خاص طور پر جب پولیس شواہد اکٹھے کرنے کے لیے ان کے موبائل لے لیتی ہے۔

اراکین ان ترامیم پر غور و خوض کر رہے ہیں جو لیبر پارٹی نے رواں سال کے اوائل میں تجویز کی تھیں جن کے تحت پولیس کے الیکٹرانک ڈیوائسز میں سے ڈیٹا حاصل کرنے کے اختیارات پر روک لگائی جائے گی۔ اس حوالے سے حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ ریپ اور جنسی استحصال کے شکار افراد کے فون کا ڈیٹا حاصل کر کے انہیں اپنی زندگیوں میں کسی کی تکلیف دہ اور بسا اوقات غیر ضروری مداخلت سے بچائیں۔

تھانے میں قدم رکھنا اور اپنے ساتھ ہونے والے مظالم کو دہرانا اور بیان کرنا ہی کسی ذہنی صدمے سے کم نہیں، جس پر اپنے فونز پر موجود تمام ڈیٹا حوالے کرنے کا خوف الگ ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ‏نیڈل اسپائکنگ، برطانیہ میں خواتین کے لیے ایک نیا خطرہ

ایک اندازے کے مطابق ایسے کسی ظلم کا نشانہ بننے والا ہر پانچ میں سے ایک فرد پرائیویسی کے خدشات کی وجہ سے مقدمہ واپس لے لیتا ہے۔ 21 فیصد مقدمات میں مظلوم افراد کو ڈجیٹل ڈاؤنلوڈز کے حوالے سے خدشات ہوتے ہیں یعنی ہسپتال، اسکول اور ملازمت کا ریکارڈ اور میڈیا پر اس حوالے سے منفی کوریج ہونے کا خوف۔

اس صورت حال کا لازماً خاتمہ ہونا چاہیے کہ جہاں ریپ کا نشانہ بننے والے افراد کو انصاف اور پرائیویسی کے حق کے درمیان کسی ایک چیز کا انتخاب کرنا پڑے۔ صرف 1.5 ریکارڈ شدہ ریپ کے معاملات کسی فیصلے تک پہنچتے ہیں اور  ایسے مقدمات کی تعداد بہت زیادہ ہیں جو مظلوم افراد واپس لے لیتے ہیں۔

ان ترامیم سے پولیس کی جانب سے کسی بھی مظلوم فرد کو اپنے فون کی تلاشی دینے کے لیے "دباؤ” میں لانے سے روکا جائے گا۔ اس کے علاوہ پولیس تحریری طور پر مظلوم فرد کو لکھ کر دے گی کہ اسے کون سی معلومات درکار ہے اور اس معلومات کا کیا استعمال کیا جائے گا۔ اس میں یہ بھی ذکر ہے کہ انکار کا مطلب یہ نہیں کہ معاملے کی تحقیقات ختم کر دی جائیں گی۔

اس کے علاوہ ریپ کرنے اور پیچھا کرنے والے افراد کے لیے کم از کم سزا کو بڑھانے کا مطالبہ بھی کیا گیا ہے جبکہ ہراسگی کے خلاف نیا قانون اور کسی کو اغوا کرنے اور جنسی حملہ کرنے والے فرد کی کڑی سزا کا مطالبہ بھی شامل تھا لیکن اس پر ابھی تک عمل درآمد نہیں ہو سکا۔ لیبر پارٹی کے چند اراکین اس کی کوشش کر رہے ہیں کہ ان شقوں کو قانون کا حصہ بنایا جائے۔

 

One Ping

  1. Pingback: ہر 10 میں سے 4 خواتین رات کے وقت تنہا ڈرائیونگ سے خوفزدہ - دی بلائنڈ سائڈ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے