ترکی میں ایک انفلوئنسر کو مردوں کی "بے حرمتی” کرنے والی ایک ٹوئٹ پر پانچ ماہ قید کی سزا سنا دی گئی ہے کیونکہ عدالت کو بتایا گیا تھا کہ خاتون نے لکھا تھا کہ انہیں مردوں سے نفرت ہے۔
34 سالہ پینار یلدرم ایک کتاب کی مصنفہ اور ایک مشہور انفلوئنسر ہیں، جو خواتین کے حقوق کے لیے آواز اٹھاتی رہتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ صرف اتنا لکھنے پر کسی خاتون کو قید کی سزا سنا دینا، وہ بھی ایسے ملک میں کہ جہاں "ہر میدان میں خواتین کی بے حرمتی، تذلیل اور ہراسگی” نظر آتی ہے، ایک حیران کن بات ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس سے قطع نظر دیکھیں تو یہ سزا ایسا جملہ لکھنے پر دی گئی ہے، جو میں نے ادا ہی نہیں کیا۔ وہ ٹوئٹ اب بھی آن لائن موجود ہے اور کوئی بھی اسے جا کر پڑھ سکتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ترکی، مشہور ریپ کیس میں مجرم کو قید کی طویل سزا
ٹوئٹر پر 19 لاکھ فالوورز رکھنے والی پینار نے یہ ٹوئٹ تب کیا جب ترک میڈیا اتھارٹیز نے بیان دیا تھا کہ نیٹ فلکس کا مواد دیکھنا ہم جنسی پرستی کو فروغ دینا ہے۔ انہوں نے کہا تھا کہ
"ریڈیو اینڈ ٹیلی وژن سپریم کونسل (RTUK) نے بیان دیا کہ نیٹ فلکس کا مواد ہم جنس پرستی کو فروغ دیتا ہے۔ انہوں نے ڈرامے ‘ عشق 101’ میں موجود ایک کردار بھی نکلوا دیا تھا جس کو ہم جنس پرست سمجھا گیا۔ میں نے ٹوئٹ اس لیے کیا کہ ہر سمجھدار شخص جانتا ہے کہ وہ محض ٹی وی دیکھنے سے ہم جنس پرست نہیں بن جاتا۔”
انہوں نے کہا کہ "میں نے کئی ایسے ٹیلی وژن شوز دیکھے بھی ہیں، ایک کے بعد دوسری فلم بھی دیکھی ہے لیکن پھر بھی تمام تر نفرت انگیز اور کریہہ کردار کے باوجود مجھے وہ مخلوق اچھی لگتی ہے جسے مرد کہتے ہیں۔”
لیکن جب معاملہ عدالت میں پہنچا ان کا بیان ‘مجھے وہ مخلوق اچھی لگتی ہے جسے مرد کہتے ہیں،’ بدل کے "مجھے مردوں سے نفرت ہے،” بن گیا۔
یہ بھی پڑھیں: افغان شخص نے 4,500 کلومیٹرز طویل سفر کر کے بیوی کو قتل کر دیا
اس فیصلے کے خلاف پینار یلدرم نے اپیل کرنے کا فیصلہ کیا ہے، جس کے تحت انہیں پانچ ماہ قید کی سزا سنائی گئی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ
"میرے خیال میں یہ ایک غیر معمولی مقدمہ ہے۔ حال ہی میں ایک عدالت نے ایک مرد کو کوئی سزا نہیں دی تھی حالانکہ اس نے ایک خاتون صحافی کو نہ صرف گالیاں بلکہ اس سے بڑھ کر اسے مارنے کی دھمکی بھی دی تھی۔ ہر میدان میں خواتین کی بے حرمتی اور تذلیل کی جاتی ہے اور انہیں ہراساں کیا جاتا ہے لیکن ہماری عدالتیں ایسے معاملات میں کوئی حساسیت نہیں دکھاتیں۔”
پینار نے مزید کہا کہ میری ٹوئٹس کو ایک مخصوص گروہ کی جانب سے پولیس کو رپورٹ کیا جاتا ہے۔ ہر ہفتے ہی کسی نہ کسی معاملے پر بیان دینے کے لیے مجھے تھانے جانا پڑتا ہے۔ اس لیے ہم سمجھے تھے کہ اس مقدمے میں بھی ایسا کچھ نہیں ہوگا لیکن جو فیصلہ ہوا ہے وہ حیران کن ہے۔ انہوں نے کہا کہ "مخالفین تو میری قید سے بھی مطمئن نہیں ہوں گے، انہیں تو میری موت سے ہی سکون ملے گا جبکہ ریپ کی دھمکیاں تو وہ مجھے دیتے ہی رہتے ہیں۔”
یہ بھی پڑھیں: ایرانی ہدایت کار والدین کے ہاتھوں غیرت کے نام پر قتل
اس سوال پر کہ ترکی میں خواتین کے لیے حالات کو بہتر بنانے کے لیے کس تبدیلی کی ضرورت ہے، پینار نے جواب دیا "مردوں کو بدلنے کی ضرورت ہے۔” ایک اور سوال پر کہ کیا خواتین کو مردوں کے برابر سمجھا جاتا ہے؟ انہوں نے کہا
"ہر گز نہیں، ملک میں ہر ہفتے ایک خاتون گھریلو تشدد کے ہاتھوں ماری جاتی ہے۔ قتل کے ان واقعات کو لیپا پوتی کے بعد پیش کیا جاتا ہے۔ کام کی جگہوں پر جو حالات ہیں وہ تو میں بیان ہی نہیں کر رہی۔ پھر ہم مردوں کی طرح کسی بھی وقت باہر بھی نہیں نکل سکتے کیونکہ اگر کوئی واقعہ پیش آ جاتا ہے تو وہ کہیں گے کہ آخر اس وقت آپ باہر کر کیا رہی تھیں؟”
اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق ترکی میں 38 فیصد خواتین کو اپنے ساتھی کی جانب سے جسمانی اور/یا جنسی تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
اس سوال پر کہ کیا آپ خود کو فیمنسٹ سمجھتی ہیں؟ پینار نے کہا کہ ترکی میں خود کو فیمینسٹ کہنا بہت مشکل ہے اور طنزاً کہا کہ اس کا فیصلہ مرد ہی کرتے ہیں کہ آپ فیمنسٹ ہیں یا نہیں۔ مرد اور عورتوں کے درمیان برابری کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ یہ کتنی افسوس کی بات ہے کہ ہم 2021ء میں بھی اس پر بات کر رہے ہیں۔
جواب دیں