کینیا میں تین کھلاڑیوں کی اموات، نظریں ذہنی صحت اور صنفی تشدد پر

دو خواتین ایتھلیٹ کے قتل نے ملک میں صنفی بنیاد پر تشدد کو نمایاں کر دیا

اکتوبر میں کینیا اپنے تین بہترین کھلاڑیوں سے محروم ہوا، جن کے قتل ہوئے یا انہوں نے خود کشی کی۔ یہ سانحہ ملک میں کھیلوں کی دنیا کے تاریک پہلو کو ظاہر کرتا ہے کہ جہاں کھلاڑیوں کو ذہنی و نفسیاتی صحت، صنفی بنیاد پر تشدد اور معاشی بد حالی کا سامنا ہے جو تشدد کی بڑھتی ہوئی شرح کے علاوہ ہے۔

ہفتہ 9 اکتوبر کو تین مرتبہ کے کراس کنٹری فاتح 35 سالہ ہوسی مچارنینگ اپنے گھر میں مردہ پائے گئے اور شبہ ہے کہ انہوں نے خود کشی کی۔ ان کا تعلق کینیا کے اس علاقے سے تھا جو ملک کے بہترین ایتھلیٹ پیدا کرنے کے لیے مشہور ہے۔ چار روز بعد 10 کلومیٹرز دور میں عالمی ریکارڈ یافتہ 25 سالہ ایگنس تروپ اپنے گھر میں مردہ پائی گئیں اور خدشہ ہے کہ انہیں قتل کیا گیا ہے۔ صرف دو دن بعد ایک اور خاتون کھلاڑی ایڈتھ متونی کو وسطی کینیا میں گھریلو تشدد کے دوران قتل کر دیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: کینیا، مشہور ایتھلیٹ شوہر کے ہاتھوں قتل کر دی گئیں

تروپ نے حال ہی میں 10 کلومیٹرز کی دوڑ میں نیا عالمی ریکارڈ قائم کیا تھا۔ وہ 2015ء اور 2016ء میں ورلڈ ایتھلیٹ کراس کنٹری چیمپیئن شپ میں دوسری کم عمر ترین فاتح بھی بنی تھیں۔ انہوں نے ٹوکیو اولمپکس 2020ء میں بھی ملک کی نمائندگی کی گو کہ 5,000 میٹرز دوڑ میں وکٹری اسٹینڈ پر نہیں آ سکیں اور چوتھے نمبر پر رہیں۔

تروپ اور ایڈتھ کی اموات کے بعد کئی لوگوں نے ملک میں صنفی بنیاد پر تشدد کے خاتمے کے لیے آواز اٹھائی ہے، جس میں حالیہ چند سالوں میں بہت اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ ملک میں صنفی تشدد کے خلاف شعور اجاگر کرنے اور اپنے غم و غصے کے اظہار کے لیے بڑے پیمانے پر #FeministConversationsKe اور #StopGBVKenya جیسے ہیش ٹیگز کا استعمال کیا گیا۔

انسانی حقوق کے عالمی ادارے ہیومن رائٹس واچ نے ستمبر میں صنفی بنیاد پر تشدد کے خلاف اپنی رپورٹ جاری کی تھی جس میں کینیا میں خواتین اور لڑکیوں کے خلاف تشدد میں مارچ اور اپریل 2020ء میں کووِڈ-19 لاک ڈاؤن کے دوران صرف دو ہفتوں میں تشدد میں 301 فیصد کا اضافہ دکھایا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: ذہنی پریشانیوں کے شکار نو عمر افراد کو نفسیاتی مدد دینے کا منصوبہ

رپورٹ کے مطابق ایسے بیشتر واقعات گھروں میں پیش آئے ہیں اور ان میں زیادہ تر افراد قریبی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں جن میں شوہر بھی شامل ہیں۔

ادارے نے کینیا کی حکومت کو اپنی پالیسیوں میں غفلت برتنے کا مرتکب قرار دیا اور کہا کہ وہ خواتین اور لڑکیوں کو تشدد سے بچانے میں مؤثر نہیں ہے۔ مطالبہ کیا گیا کہ حکومت بحران کے ان ایام میں خواتین اور لڑکیوں کے خلاف تشدد سے بچنے، نمٹنے اور اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے ویسے ہی ہنگامی اقدامات اٹھائے جیسے کووِڈ-19 کے خلاف اٹھائے گئے ہیں۔

صنفی بنیاد پر تشدد کے علاوہ کھلاڑیوں کی ذہنی صحت اور تناؤ کے حوالے سے بھی باتیں سامنے آئی ہیں۔ کھلاڑیوں کی ذہنی صحت سے عموماً غفلت برتی جاتی ہے کیونکہ ان سے توقع رکھی جاتی ہے کہ زخمی ہونے یا ذہنی پریشانیوں کے باوجود بہتر سے بہترین کارکردگی دکھائیں اور ایسا نہ کرنے کی صورت میں انہیں شدید دباؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستانی خواتین خود سوزی اور اقدامِ خود کشی کیوں کر رہی ہیں؟

ان تین نوجوان کھلاڑیوں کے کیریئر اور اموات نے کووِڈ-19 سے پیدا ہونے والے اثرات کو بھی نمایاں کیا ہے۔ کینیا میں کھیلوں پر ایک سال تک پابندی رہی، جس سے کئی کھلاڑی مالی اور ذہنی دونوں لحاظ سے بری طرح متاثر ہوئے۔

ایتھلیٹکس کینیا نے رواں سال اپریل میں بتایا تھا کہ ملک کو ایک سال کے عرصے میں 5 ارب شلنگز (تقریباً 45 ملین ڈالرز) کا نقصان ہوا ہے۔

کھلاڑیوں کو سخت مالی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اور سماجی مسائل نے اس جلتی پر تیل کا کام کیا۔

رواں سال 10 اکتوبر کو جب ذہنی صحت کا عالمی دن منایا گیا تو کینیا نے دو دن ان مرنے والے ایتھلیٹس کی یاد میں مختلف سرگرمیاں کیں۔ وہ دسمبر میں ذہنی صحت کے اسباب اور ان کے حل کے لیے اقدامات پر کام کر رہا ہے۔

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے