ایک پاکستانی خاتون نے پشاور کی عدالتِ عالیہ سے درخواست کی ہے کہ وہ پاکستان سٹیزن شپ ایکٹ 1951ء کی ایک دفعہ کو غیر آئینی قرار دے، جس کے تحت پاکستانی مردوں کی غیر ملکی بیویوں کو تو شہریت مل جاتی ہے لیکن کوئی پاکستانی خاتون اپنے غیر ملکی شوہر کے لیے شہریت حاصل نہیں کر سکتی۔
پشاور کی رہائشی ثمینہ روحی نے اپنی درخواست میں عدالت سے استدعا کی ہے کہ وہ وزارتِ داخلہ اور نیشنل ڈیٹابیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) کو حکم دے کہ وہ اس کے افغان شوہر نصیر محمد کو پاکستانی شہریت عطا کرے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ یہ قانون پاکستانی خواتین کے خلاف امتیازی حیثیت رکھتا ہے۔
درخواست گزار نے عدالت سے کہا ہے کہ وہ سٹیزن شپ ایکٹ کی دفعہ 10(2) کو غیر آئینی اور امتیازی قرار دے، جس کے تحت کسی پاکستانی خاتون کا غیر ملکی شوہر یہاں کی شہریت حاصل نہیں کر سکتا۔
یہ بھی پڑھیں: عرب امارات کا نیا شہریت کا قانون اور دہرے معیارات
خاتون کے وکلا کا کہنا ہے کہ یہ قانون امتیازی ہے اور مرد اور خواتین کی برابری کو تسلیم نہیں کرتا۔
خاتون کا کہنا ہے کہ ان کا تعلق ایک معزز گھرانے سے ہے۔ انہوں نے 1985ء میں افغان شہری نصیر محمد سے شادی کی تھی، جن سے ان کے پانچ بچے ہیں اور وہ سب پاکستانی شہری ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ان کے شوہر عرصہ دراز سے کویت میں کام کر رہے تھے اور انہیں اپنے خاندان سے ملنے کے لیے محض مہینے ڈیڑھ کا ویزا ہی دیا جاتا تھا۔ اب کووِڈ-19 کی وجہ سے کویت میں انہیں ویزا کے لیے اپائنٹمنٹ نہیں دیا جا رہا، اس لیے وہ اپنے گھر والوں سے نہیں مل پا رہے۔
ثمینہ روحی کا کہنا ہے کہ میں نے اپنے شوہر کی شہریت کے لیے نادرا اور امیگریشن دفاتر کا بھی رخ کیا، لیکن مجھے بتایا گیا کہ قانون صرف پاکستانی مرد کی غیر ملکی بیوی کو ہی شہریت دیتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: قطر میں پہلے انتخابات، خواتین کے احتیاط کے ساتھ اٹھتے قدم
انہوں نے کہا ہے کہ 2008ء میں وفاقی شرعی عدالت بھی اس قانون کو قرآن و سنت کے خلاف، صنفی بنیادوں پر امتیازی اور آئین کی دفعہ 2 (ا) اور 25 کی خلاف ورزی بھی قرار دے چکی ہے۔
ثمینہ کا کہنا ہے کہ کہ
پاکستان لاکھوں افغانوں کا گھر ہے، جو ایک ہی ثقافت سے تعلق رکھتے اور زبان بولتے ہیں اور ان کی بڑی تعداد نے خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں شادیاں بھی کی ہیں، لیکن شہریت صرف پاکستانی مردوں کی بیویوں ہی کو ملی جبکہ خواتین کے شوہر پاکستانی شہریت سے محروم ہیں۔
انہوں نے متعلق بین الاقوامی کنونشنز کا بھی حوالہ دیا جن پر پاکستان نے دستخط کر رکھے ہیں اور کہا کہ شہریت ایکٹ میں ترمیم نہ کر کے پاکستان ان تمام بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کر رہا ہے، جن کے تحت صنفی بنیاد پر کوئی امتیاز نہیں ہونا چاہیے۔
جواب دیں