مصر کو خواتین کے خلاف ریاستی جبر کا خاتمہ کرنا ہوگا، کھلا خط

تمام شعبہ ہائے زندگی میں خواتین کے حقوق کی صورتحال بہتر بنانے کے لیے عملی اقدامات اٹھانے کا مطالبہ

مصر صنفی مساوات کے حوالے سے دنیا کے بدترین ممالک میں سے ایک ہے اور ملکی خواتین کا مستقبل داؤ پر لگا ہوا ہے۔ حکومت کے مظالم کی وجہ سے مصری خواتین کو روزانہ جنسی ہراسگی اور بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا سامنا ہے کہ جن میں ادارہ جاتی تشدد بھی شامل ہے۔

افریقن ویمن رائٹس ایڈووکیٹس (AWRA) اور دی فائیو فاؤنڈیشن، گلوبل پارٹنرشپ ٹو اینڈ ایف جی ایم نے ایکوالٹی ناؤ، ڈیموکریسی فار عرب ورلڈ ناؤ اور خطے کی دیگر نمایاں آوازوں کے ساتھ مل کر مصری حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ صورت حال کو بہتر بنانے کے لیے فوری اقدامات اٹھائے۔

اس سے تمام شعبہ ہائے زندگی میں خواتین اور لڑکیوں کے حقوق کی صورتحال بہتر بنانے کے لیے عملی اقدامات اٹھانے کا مطالبہ کیا گیا ہے کہ جس میں کم عمری کی شادی اور جنسی تشدد اور صنفی امتیاز پر اکسانے والے قوانین کے ملک کے قوانین سے خاتمہ کرنا شامل ہے۔

اس کھلے خط پر دستخط کرنے والوں نے مصری حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ عورتوں کے ختنے (FGM) کے خاتمے کے لیے قوانین کو بھی عملاً نافذ کرے۔ 2.72 کروڑ متاثرین کے ساتھ، جو مصر کی کل خواتین کی آبادی کا تقریباً 90 فیصد بنتی ہیں، مصر FGM کا سامنا کرنے والی دنیا کی سب سے بڑی آبادی رکھتا ہے، اس کے باوجود ملک مؤثر انداز میں اقدامات نہیں اٹھا پایا۔

اس گھناؤنی رسم کے مرتکب افراد پکڑے بھی جائیں تو انہیں بہت مختصر یا معطل سزا دی جاتی ہے، مثلاً 2017ء میں معیار محمد موسیٰ نامی 17 سالہ لڑکی اور صرف ایک سال بعد ایک اور 12 سالہ لڑکی ندا حسن عبد المقصود کی ختنے کے بعد وفات کا معاملہ۔

یہ بھی پڑھیں: مصر، عورتوں کے ختنے پر 10 سال تک قید کی سزا ہوگی

‏2013ء میں ایک 13 سالہ لڑکی کا قاتل ڈاکٹر رسلان فضل 2016ء میں تین سال بعد گرفتار ہوا وار صرف چند ماہ ہی قید میں رہا۔

عورتوں کے ختنے کے خلاف قانون رواں سال سخت کیا گیا ہے لیکن اب بھی یہ مضر بلکہ بسا اوقات مہلک روپ اختیار کرنے والی رسم زندہ ہے۔

اس کے علاوہ ملک میں خواتین اپنے جسم پر اختیار کا دعویٰ بھی نہیں کر سکتیں کہ جہاں شوہر کے ہاتھوں ریپ اور کنوار پن کے ٹیسٹ کے خلاف بھی قانون موجود نہیں۔ حکومت نے گھریلو تشدد کے خاتمے کے لیے بھی کوئی نمایاں کوشش نہیں کی کہ جسے بڑے پیمانے پر برداشت کیا جا رہا ہے اور معاشرے میں قبول کیا جاتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: کیا مصر میں کم عمری کی شادی کا قانون سخت ہو پائے گا؟

مصری خواتین اور لڑکیوں نے بہت سہہ لیا۔ گزشتہ چند سالوں میں انہوں نے خوف کی فضا کو پیچھے چھوڑا ہے اور جنسی استحصال کے بھیانک تجربات کو سامنے لائی ہیں۔ اس ظلم کا نشانہ بننے والی خواتین انصاف کی خواہاں ہیں اور ریاست سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ جنسی ہراسگی کے مرتکب افراد کو ملی کھلی چھوٹ کے خاتمے کے ذریعے ان کی مدد کرے۔ البتہ جسمانی اختیار کے حوالے سے ان کے مطالبات پر کسی کے کان پر جوں تک نہ رینگی جب جنوری 2021ء میں مصری کابینہ نے ایک قانون پیش کیا کہ جس نے خواتین کے ان کے بنیادی حقوق سے مزید محروم کر دیا۔

انسانی حقوق کے کارکنوں اور نچلی سطح کی خواتین نے اس تجویز کے خلاف زبردست احتجاج کیا کہ جس میں بچے کی حوالگی میں باپ کو ماں پر ترجیح دینا اور ماؤں کو اپنے بچوں کے ساتھ بیرونِ ملک جانے سے روکنا بھی شامل ہوگا۔

شادی کے معاملے میں خاندان کے کسی مرد مثلاً باپ، بھائی یا چچا کی جانب سے نکاح نامے پر لڑکی کی جانب سے دستخط کرنا بھی شامل ہوگا۔ گو کہ قانون کے اس مسودے کا منظور ہونا یقینی نہیں، لیکن اس کھلے خط پر دستخط کرنے والے اس معاملے پر مزید شفافیت چاہتے ہیں تاکبہ یقینی بنایا جا سکے کہ نئے مسودے میں یہ تجاویز ایک مرتبہ پھر سامنے نہ آئیں کیونکہ قانون کو کسی واحد سیاسی نمائندے کے بجائے حکومت نے تجویز کیا تھا۔

مصر میں انٹرنیٹ متبادل بیانیے کے اظہار کا واحد بڑا ذریعہ ہے لیکن اس کے باوجود مصر کی سوشل میڈیا پر اثر انگیز خواتین جو ریاست یا حکمران اشرافیہ سے تعلق نہیں رکھتی، جو گرفتاریوں کا سامنا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: مصر کا ٹک ٹاکر خواتین پر کریک ڈاؤن، دو انفلوئنسرز کو طویل سزائیں بھی سنا دیں

‏2020ء سے اب تک حکومت سوشل میڈیا پر اثر رکھنے والی خواتین کے خلاف بدترین مہم چلا چکی ہے اور درجن سے زیادہ کو مبہم "اخلاقی” قوانین کی بنیاد پر گرفتار کر چکی ہے اور ان پر الزام ہے کہ ان خواتین نے "خاندانی اقدار” کو نقصان پہنچایا ہے۔

جب معروف انفلوئنسر حنین حسام کو گرفتاری کے بعد بری قرار دیا گیا تو حکام نے 2021ء میں انہیں ایک مرتبہ پھر گرفتار کر لیا اور اس مرتبہ ان پر "انسانی اسمگلنگ” کا الزام لگایا، محض اس بنیاد پر کہ ان کے سوشل میڈیا کے استعمال کی وجہ سے پدر شاہی (patriarchal) اقدار کو ٹھیس پہنچ رہی ہے۔

علاقائی اور عالمی خواتین کے حقوق کی کارکنوں کا کہنا ہے کہ خواتین انفلوئنسرز کے خلاف ریاستی کریک ڈاؤن ان کی آزادی اظہار اور اختیارات کی خلاف ورزی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: تاریخی فیصلہ، ہراساں کرنے والے مصری نوجوان کو قید کی سزا

مصر کو عطیات دینے والے اور وہاں سرمایہ کاری کرنے والے اداروں کو خواتین کے خلاف ان مظالم کو ذہن میں رکھنا چاہیے، اور جہاں ضرورت پڑے وہاں مدد کرنی چاہیے خاص طور پر نچلی سطح کی خواتین کارکنوں کو۔

اقوام متحدہ اور عالمی طاقتیں مساوات کے لیے جو ترقی پسند، شفاف اور امن پسند وژن رکھتی ہیں، وہ حاصل نہیں ہو سکتا جب عرب دنیا کا سب سے زیادہ آبادی رکھنے والا ملک اس طرح خواتین اور لڑکیوں کے حقوق کی بیخ کنی کرے۔

خواتین اور لڑکیوں کو ایک باوقار اور بھرپور زندگی گزارنے کی آزادی دینے کے لیے مصر کی حکومت پر زور ڈالنا چاہیے۔ رواں ماہ اس کا اہم موقع ہے کہ جب خواتین کے خلاف ہر قسم کے امتیاز کے خاتمے کے لیے اقوام متحدہ کی کمیٹی (CEDAW) میں اس معاملے پر نظر ثانی کی جائے گی۔

مصر میں معاشی تبدیلی کا عمل جاری ہے۔ یہ براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کے حوالے سے ایک پرکشش ملک ہے لیکن یہ اپنی صلاحیتوں پر پورا نہیں اتر پائے گا جب تک ملک کی نصف آبادی کو محفوظ، آزاد اور سماجی و معاشی طور پر ملکی مستقبل میں اپنا بھرپور کردار ادا کرنے کا موقع نہیں دیا جائے گا۔

 

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے