6 ستمبر کی صبح جنوب مشرقی فرانس کے قصبے مونٹی لیمار میں ایک 38 سالہ خاتون اپنے گھر سے نکلیں۔ چند منٹوں کے بعد ان کے پڑوسیوں کو چیخ و پکار کی آوازیں آئیں، وہ اپنے گھروں سے باہر نکلے تو انہیں اپارٹمنٹ کی راہداری میں ان کا بے جان لاشہ پڑا ہوا ملا۔
اس مختصر سے دورانیے میں ان کے سابق شوہر نے ان کے گلے، گردن، پیٹھ اور بازو پر 30 وار کیے جبکہ ان کے 4 سے 15 سال کے چار بچے یہ سب دیکھ رہے تھے۔ ایک نے مداخلت کی ناکام کوشش بھی کی۔ سابق شوہر، جس نے حسد اور جھنجلاہٹ میں یہ قدم اٹھایا تھا، اب قتل کے مقدمے کا سامنا کر رہا ہے۔
یہ ایک افسوس ناک واقعہ ہے لیکن حیران کن ہر گز نہیں۔ رومان اور محبت کی سرزمین کے طور پر مشہور فرانس میں شوہر یا ساتھی کے ہاتھوں قتل کی شرح مغربی یورپ میں سب سے زیادہ ہے۔
رواں سال اب تک کم از کم 94 خواتین موجودہ یا سابق ساتھیوں کے ہاتھوں جان گنوا چکی ہیں، یعنی اوسطاً ہر تیسرے دن ایک قتل۔ فرانس میں Ex نامی ایک گروپ یہ اعداد و شمار اکٹھے کرتا ہے، لیکن اس کا کہنا ہے کہ حقیقی تعداد ممکنہ طور پر کہیں زیادہ ہے۔
یہ بھی پڑھیں: میکسیکو، خواتین کے قتل کی شرح ریکارڈ بلندیوں پر
ادارے کی اراکین میں سے ایک خاتون، جو جولیا کے فرضی نام سے کام کرتی ہیں، کہتی ہیں کہ "ہمیں یقین ہے کہ ایسے دیگر واقعات بھی پیش آتے ہیں۔”
فرانسیسی وزارت داخلہ کے مطابق گزشتہ سال ملک میں 102 خواتین اپنے موجودہ یا سابق شوہروں اور دوستوں کے ہاتھوں قتل ہوئیں۔ یہ 2019ء کے 146 کے مقابلے میں کم تعداد تھی۔ رواں سال ماہرین کا اندازہ ہے کہ یہ شرح پرانی 130 قتل سالانہ کے اوسط پر واپس جائے گی۔
حکومت نے اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے 2019ء میں متعدد اقدامات کا اعلان کیا تھا جس میں صنفی بنیاد پر تشدد کے حوالے سے اسکول کی سطح پر شعور اجاگر کرنا، تھانوں میں خاص طور پر تربیت یافتہ سماجی کارکنوں کی تقرری، استحصال کرنے والے افراد کی نگرانی کے لیے الیکٹرانک بریسلیٹ، دار الامانوں کی گنجائش میں اضافہ اور ایسے ظالم افراد سے آتشیں اسلحہ واپس لینے کے اقدامات شامل تھے۔
یہ بھی پڑھیں: خاتون کا بھیانک قتل، فرانس میں گھریلو تشدد کرنے والے مشتبہ افراد کا اسلحہ ضبط کرنے کا مطالبہ
400 ملین ڈالرز کے اس پیکیج کے علاوہ زن کشی (femicide) کے خلاف سخت قوانین بھی موجود ہیں لیکن ناقدین کا کہنا ہے کہ ان قوانین کا بھرپور اطلاق نہیں ہوا جس کی وجہ سے صورت حال میں کوئی بہتری نظر نہیں آئی۔
جولیا کا کہنا ہے کہ "فرانس قوانین منظور کرنے میں بڑی مہارت رکھتا ہے لیکن وہ لاگو نہیں ہوتے، خاص طور پر جب معاملہ خواتین کا ہو۔ قانون کو نافذ کریں، یہ بہت آسان کام ہے۔”
رواں سال کے اوائل میں قتل کے دو بڑے واقعات پیش آئے۔ پہلے 4 مئی کو 31 سالہ تین بچوں کی ماں چاہینیز بوتا کو جنوب مغربی فرانس میں بوردے ایئرپورٹ کے قریب ان کے شوہر نے دن دیہاڑے ٹانگوں میں گالیاں مار کر زندہ جلا دیا۔ ایک سال پہلے ہی ان کے شوہر پر گھریلو تشدد کا جرم ثابت ہوا تھا اور اسے 18 ماہ قید کی سزا سنائی گئی تھی، جس میں سے آدھی سزا معطل ہو گئی تھی۔ اس نے اپنی بیوی سے رابطہ نہ کرنے کے حکم کی بارہا خلاف ورزی کی۔ لیکن خاتون کو ہنگامی ٹیلی فون نہیں دیا گیا، اور شوہر کو الیکٹرانک مانیٹرنگ بریسلیٹ نہیں پہنایا گیا۔ وزیر انصاف ایرک دوپون-موریتی کے مطابق یہ اہم آلات زیادہ تر تھانوں کی درازوں میں ہی پڑے رہتے ہیں۔
دوسرا واقعہ اس کے محض تین ہفتے بعد پیش آیا جب 22 سالہ اسٹیفنی ڈی ونسینزو کو مشرقی فرانس میں چاقو کے وار سے قتل کر دیا گیا۔ انہوں نے بارہا شکایت درج کروائی تھی کہ انہیں اپنے ساتھی کے ہاتھوں قتل کا خوف ہے۔ اسے الیکٹرانک بریسلیٹ بھی لگایا گیا لیکن وہ کسی طرح اسے اتارنے میں کامیاب ہو گیا اور اسے قتل کر دیا۔
یہ بھی پڑھیں: خواتین پر تشدد کے واقعات کو دہشت گردی کی طرح سنجیدہ لیا جائے، پولیس سے مطالبہ
نیشنل یونین آف فیمی سائیڈ فیملیز کی نائب صدر ہیلین دی پونسی کہتی ہیں کہ مرد سمجھتے ہیں کہ بیوی ان کی ملکیت ہے۔ ان کے خیال میں بیوی کو کیا کرنا چاہیے، کیا پہننا چاہیے، کیا دیکھنا چاہیے، انہیں کیا پسند ہونا چاہیے، کہاں کام کرنا چاہیے، کام کرنا بھی چاہیے یا نہیں، یہ سب فیصلے انہوں نے کرنے ہیں، اس صورت حال کو بدلنا ہوگا۔
خواتین کے حقوق اور گھریلو تشدد کے معاملات میں مہارت رکھنے والی ایک وکیل این بوئیلون کہتی ہیں کہ یہ تصورات صدیوں تک فرانسیسی قوانین کا حصہ رہے۔ 1810ء کے نپولینی قوانین کی دفعہ 324 کے تحت اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو کسی دوسرے مرد کے ساتھ پائے تو اس کا قتل قابلِ معافی ہے۔ "دہائیوں تک ہمارا قانون امتیازی رہا، جس میں مرد اور عورت برابر نہیں تھے۔ جب تک یہ تعلق برابر نہیں ہوگا، جس میں ایک دوسرے پر غالب رہے گا، تشدد کا جراثیم موجود رہے گا۔”
آرٹیکل 324 کو 1975ء میں ختم کیا گیا تھا لیکن "جذبات میں آ کر قتل” کی بات آج بھی ہوتی ہے۔ زن کشی کے معاملات کی ماہر اور انگلینڈ کی یونیورسٹی آف گلوسسٹرشائر کی پروفیسر جین مونکٹن اسمتھ کہتی ہیں کہ خواتین کے قتل کی یبیشتر وارداتیں ایسی نہیں ہوتیں۔ تحقیق بتاتی ہے کہ بیشتر قتل مکمل طور پر طے شدہ اور منصوبے بندی سے کیے جاتے ہیں لیکن وہ جذبات میں آ کر قتل کی بات کرتے ہیں۔ یہ قتل اس لیے ہو رہے ہیں کیونکہ عورتیں روک ٹوک کرنے والے مردوں سے پیچھا چھڑانا چاہ رہے ہیں، وہ ان کے کنٹرول کو چیلنج کر رہی ہیں۔ اسی وجہ سے 90 فیصد سے زیادہ قتل ہو رہے ہیں، اور ہم اب بھی سمجھتے ہیں کہ عورت نے اسے اشتعال دلایا ہوگا۔”
Pingback: فرانس، میڈیا انڈسٹری میں نئے اسکینڈل نے ہنگامہ کھڑا کر دیا - دی بلائنڈ سائڈ