22 سالہ ماہم شیراز ایک بہادر کھلاڑی ہیں۔ گوادر آف روڈ ریلی میں ان کی گاڑی الٹ گئی اور دو مرتبہ قلابازیاں کھا کر بند ہو گئیں، وہ خود بھی زخمی ہوئیں، لیکن اس کے باوجود ہمت کی اور بالآخر فنش لائن تک پہنچ کر اپنی ریس مکمل کی۔
"جب گاڑی بند ہوئی اور اسٹارٹ نہیں ہو رہی تھی، تو میں سمجھی کہ بس ریس ختم ہو گئی۔ میں سخت مایوس تھی لیکن جب اچانک گاڑی چل پڑی تو میں اس میں سوار ہو گئی اور فنش لائن کی طرف سفر شروع کر دیا۔ جو کچھ ہوا، میں نے اس کا تصور بھی نہیں کیا تھا۔ گاڑی الٹی، اس کا حال بد ترین تھا، ایک ہاتھ سے خون بہہ رہا تھا لیکن میں ریس مکمل کرنے میں کامیاب ہو گئی۔”
جب ماہم کی گاڑی کو حادثہ پیش آیا تو اسی ریس میں شریک ان کے والد شیراز قریشی فوراً جائے وقوعہ کی طرف گئے۔ جب وہ پہنچے تو ماہم کو تپتے صحرا میں دو گھنٹے گزر چکے تھے اور ان کے ایک ہاتھ سے خون بہہ رہا تھا۔ وہ بتاتے ہیں کہ "میں نے اس کے ہاتھ پر پٹی باندھی، پانی دیا۔ ٹرک کو اسٹارٹ کرنے کی کوشش کی تو وہ حیران کن طور پر اسٹارٹ ہو گیا۔ اس پر میں نے پوچھا ریس مکمل کرنی ہے؟ ماہم نے کہا کیا میں اب بھی مکمل کر سکتی ہوں؟ میں نے جواب یہ بات تم اچھی طرح جانتی ہو کہ کسی ریسر کے لیے ریس کو مکمل کرنا کتنے اعزاز کی بات ہوتی ہے۔”
گوادر ریلی ہر سال منعقد ہونے والا ایونٹ ہے جس میں ملک بھر سے 200 سے زیادہ ریسرز حصہ لیتے ہیں۔ گزشتہ سال کووِڈ-19 کی وجہ سے نہ ہونے والی یہ ریلی رواں سال 14 سے 17 اکتوبر تک تین دن کے لیے منعقد ہوئی۔
البتہ یہ ماہم شیراز کی پہلی ریس نہیں تھی۔ وہ فروری میں چولستان جیپ ریلی میں پہلے ہی حصہ لے چکی ہیں۔ ان کے والد شیراز قریشی 7 سالوں سے ان میدانوں پر اپنی گاڑی دوڑاتے نظر آ رہے ہیں۔
قانون کی طالبہ ماہم کے لیے ریسنگ محض ایک کھیل نہیں۔ انہیں امید ہے کہ بڑے ریسرز کے ساتھ ان کی موجودگی خواتین کو حوصلہ عطا کرے گی۔ کہتی ہیں
"کبھی کبھی ماحول عجیب سا لگتا ہے کہ تقریباً 90 مردوں کے درمیان چار، پانچ خواتین کھڑی ہیں۔ لیکن اس سے مجھے حوصلہ اور تحریک بھی ملتی ہے کہ میں دوسری لڑکیوں کے لیے تحریک کا باعث بن رہی ہوں۔”
جواب دیں