گو کہ عراق میں صنفی مساوات کئی خواتین کے لیے ایک دُور پرے کا خواب ہے، لیکن حلبجہ کی خواتین مقامی حکومت میں اعلیٰ ترین عہدوں پر ضرور پہنچ گئی ہیں۔
میئر، یونیورسٹی ڈین، ویٹرنری ڈپارٹمنٹ کے ڈائریکٹر اور ترجمان محکمہ صحت وہ چند بڑے عہدے ہیں جو 1,15,000 آبادی رکھنے والے اس شہر میں خواتین کے پاس ہیں۔
یہ عراقی کردستان میں ایک بڑی تبدیلی ہے کہ جہاں عوامی امور کے بیشتر عہدوں پر عرصہ دراز سے مردوں کا قبضہ تھا۔
روایتی اور قدامت پسند اقدار کی وجہ سے خواتین کے لیے امتیازی سلوک کا سامنا کرنا اور گھر تک محدود رہنا عام ہے۔
یہ بھی پڑھیں: وبا کے دوران اور اس کے بعد بھی، عراقی لڑکیوں کی تعلیم جاری رکھنے کا منصوبہ
55 سالہ فرج نے کہا کہ جب آپ خاتون ہوتی ہیں تو ترقی کرنے کے لیے بہت سی قربانیاں دینی پڑتی ہیں۔
15 سال تک بلدیہ میں سابق نائب سربراہ رہنے والی فرج نے اپنے سیاسی کیریئر کا آغاز کئی سال پہلے کیا تھا، جب وہ ایک طالبہ تھی اور صدام حسین حکومت کے خلاف پمفلٹ تقسیم کر رہی تھیں۔ 1988ء کی ایران-عراق جنگ کے اختتام کے بعد اسی شہر پر بدنام کیمیائی حملہ بھی کیا گیا تھا۔
وہ اس دن کو یاد کرتی ہیں جب چند مسلح افراد ان کے پاس آئے تھے اور ایک مشکوک کاغذ پر ان سے دستخط کرواناچاہ رہے تھے۔ "میں سمجھی کہ وہ اپنی بندوق نکال کر مجھے گولی مار دے گا۔ لیکن انہوں نے کہا کہ اگر تم عورت نہ ہوتیں تو ہم بتاتے کہ کیا کرنا ہے۔”
انہوں نے کہا کہ ہمارے شہر میں صنفی مساوات کی تحریک زیادہ تر پیٹریاٹک یونین آف کردستان (PUK) چلاتی ہے جو عراقی کردستان کی دو تاریخی جماعتوں میں سے ایک ہے۔
یہ بھی پڑھیں: عراق کے انتخابات میں حصہ لیتی سینکڑوں بہادر خواتین
اس کے باوجود کئی شہریوں کا کہنا ہے کہ زیادہ تر پیشرفت مصنوعی ہے اور خدمات کے سرکاری شعبے کی خامیوں کوتاہیوں پر لیپا پوتی کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔
اربیل میں کردستان کی علاقائی حکومت میں چھوٹی جماعت کی حیثیت سے PUK علاقائی پارلیمان میں اسپیکر کی نشست رکھتی ہے، جو ایک خاتون رواز فائق کو دی گئی ہے۔
فرج کاکہنا ہے کہ ان کی جماعت "ہر شعبے میں مرد اور عورت کی برابری پر یقین رکھتی ہے۔ اسی نے حلبجہ میں ہمیں انتظامی عہدوں پر صنفی مساوات حاصل کرنے میں مدد دی ہے۔”
حلبجہ ایک خاتون میئر عدیلہ خانم پر بھی فخر کرتا ہے جو 20 ویں صدی کی پہلی دہائی میں اس عہدے پر فائز تھیں۔ اب ایک اور خاتون نوخشہ ناسح اس عہدے پر فائز ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: مردوں کی دنیا میں عراقی خاتون سیاست دان کی جدوجہد جاری
پھر یہاں کردستان کی پہلی خاتون یونیورسٹی ڈین، مہاباد کامل عبد اللہ، بھی ہیں۔ بتاتی ہیں کہ "جب میں حلبجہ یونیورسٹی کی سربراہ بنی تو سب سے پہلے مبارک باد اسلامی جماعتوں نے دی۔”
لیکن یہ سب خوش آئند خبریں بھی کردستان میں خواتین کی صورت حال کی حقیقی نمائندگی نہیں کرتیں۔ 2018ء میں اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ نے پایا کہ کام کی عمر رکھنے والی خواتین کا صرف 15 فیصد افرادی قوت کا حصہ ہے۔ ان میں سے تین چوتھائی سرکاری شعبے سے وابستہ ہے۔
10 اکتوبر کو ہونے والے عراقی پارلیمان کے انتخابات میں ابتدائی نتائج کے مطابق 90 سے زیادہ خواتین منتخب ہوئیں، جو 329 نشستیں رکھنے والے ایوان میں خواتین کے لیے کم از کم 83 کے کوٹے سے زیادہ ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: عراق کی گم شدہ خواتین
گو کہ کردستان کا علاقہ نسبتاً استحکام اور برداشت کی ساکھ رکھتا ہے، لیکن خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والے کارکنوں کا کہنا ہے کہ جبری شادی اور عورتوں کے ختنے جیسے معاملات پر ابھی بہت کام باقی ہے۔
حلبجہ میں انسانی حقوق کے سرکاری کمیشن کی سربراہی کرنے والے گلستان احمد نے کہا کہ "خواتین کا اعلیٰ عہدوں پر ہونا کافی نہیں۔ ضرورت ہے نچلے عہدوں پر زیادہ خواتین کی۔”
خاتون تاجر مجدا احمد نے کہا کہ اعلیٰ عہدوں پر خواتین کی موجودگی کے باوجود ان کے لیے خدمات میں بہتری آنا ابھی باقی ہے۔ بتاتی ہیں کہ "میں چھ سال سے مارکیٹ میں کام کر رہی ہوں اور کسی ایک شخص نے خواتین کے لیے عوامی بیت الخلا نہیں بنوائے۔”
Pingback: ٹورنٹو ملازمت پیشہ اور کاروباری خواتین کے لیے دنیا کا بہترین شہر قرار - دی بلائنڈ سائڈ