رواں سال پاکستان میں پولیو کا صرف ایک کیس سامنے آیا ہے اور ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا۔
ملک میں پولیو کے خلاف مہم کا آغاز 26 سال قبل ہوا تھا اور پہلی مرتبہ ایسا ہوا ہے کہ سال بھر میں صرف ایک کیس سامنے آیا ہو۔
دنیا بھر میں پاکستان اور افغانستان ہی ایسے ممالک ہیں، جہاں پولیو اب بھی وجود رکھتا ہے۔
ملکی پولیو پروگرام کے سربراہ ڈاکٹر شہزاد بیگ بتاتے ہیں کہ 2017ء میں پولیو کے خاتمے کے قریب پہنچے تھے، جب سال بھر میں صرف 8 کیسز سامنے آئے تھے۔ یعنی اس سے پہلے ہم کبھی اس مرحلے تک نہیں پہنچے۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان کی پولیو کے خلاف عظیم جنگ، خواتین ہراول دستہ
نائیجیریا پولیو سے پاک قرار دیا گیا آخری ملک ہے کہ جہاں عمر بھر کی معذوری دینے والے اس مرض کا آخری کیس 2016ء میں سامنے آیا تھا۔
بدقسمتی سے 2017ء میں صرف 8 کیسز سامنے آنے کے بعد اگلے سالوں میں پاکستان میں ایک مرتبہ پھر پولیو میں اضافہ دیکھنے میں آیا۔ 2019ء میں 2019ء میں 147 اور 2020ء میں 84 کیسز دیکھے گئے۔
رواں سال یعنی 2021ء کا واحد کیس 27 جنوری کو بلوچستان میں سامنے آیا تھا، جہاں کمزور بنیادی ڈھانچے اور صحت کی سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے پولیو ویکسین کی مہم ویسے ہی مشکلات سے دوچار رہتی ہے۔
گو کہ حکام رواں سال پولیو کیسز میں کمی پر مطمئن دکھائی دیتے ہیں لیکن پولیو سے پاک قرار دیے جانے کے لیے پاکستان کو اب بھی تین سال انتظار کرنا ہوگا اور اس دوران یقینی بنانا ہوگا کہ کوئی بھی بچہ اس مرض کا شکار نہ بنے۔
یہ بھی پڑھیں: ویکسین مہم کی کامیابی کا انحصار خواتین پر
پاکستان کی پولیو مہم کو بہت سے خطرات کا سامنا ہے جن میں سے ایک دہشت گردوں کا بھی ہے۔ چند ماہ پہلے اگست میں خیبر پختونخوا میں ایک پولیو ویکسینیشن ٹیم کی حفاظت پر مامور پولیس اہلکار کو گولی مار دی گئی تھی۔
شہزاد بیگ نے بتایا کہ
ملک کے چند علاقوں میں خواتین سے کام نہیں کروانا چاہتے۔ اس لیے ہمارا خواتین پر مشتمل عملہ ویکسین اپنے دوپٹوں میں چھپا کر لے جاتا ہے۔
پاکستان کی انسدادِ پولیو مہم میں 2,80,000 سے زیادہ کارکن، ڈاکٹر اور عملے کے دیگر اراکین شامل ہیں، جن میں سے دو تہائی خواتین ہیں۔
خواتین کی موجودگی سے اس مہم کو کافی سہارا ملا ہے کیونکہ گھر گھر مہم کے دوران وہی ماؤں کو قائل کر سکتی ہیں کہ یہ ویکسین ان کے بچوں کی صحت کی ضامن ہے۔
یہ بھی پڑھیں: بھارت میں ویکسین لگوانے کے عمل میں بھی صنفی تفریق
ویکسین ہچکچاہٹ پاکستان میں ایک بڑا مسئلہ ہے۔ لوگ اس کے مؤثر ہونے پر شک کرتے ہیں یا پھر اس مہم کے حقیقی مقاصد پر اعتماد نہیں کرتے۔ اس کے علاوہ اس مہم کو غیر ملکی ایجنڈا اور ملک کو غیر مستحکم کرنے کی سازش بھی سمجھا جاتا ہے۔ پولیو ویکسین لینے سے انکار میں اس وقت مزید اضافہ ہوا جب پتہ چلا کہ امریکی ِخفیہ ایجنسی سی آئی اے نے ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کی موجودگی کی تصدیق کے لیے ایک پاکستانی ڈاکٹر شکیل آفریدی کا استعمال کرتے ہوئے ایک جعلی پولیو ویکسین مہم چلائی تھی۔
پولیو ویکسین لینے سے انکار کی مختلف دیگر وجوہات بھی ہیں۔ کچھ لوگ اس کے حلال ہونے پر شک کرتے ہیں جبکہ دیگر کا کہنا ہے کہ کہیں یہ ایکسپائرڈ نہ ہو۔ کووِڈ-19 کی آمد کے بعد تو سماجی فاصلے کو بنیاد بنا کر لوگوں نے پولیو عملے سے دُور رہنے میں ہی عافیت جانی۔
کراچی میں پولیو پروگرام کی کمیونی کیشن اسپیشلسٹ رابعہ عبد اللہ کہتی ہیں ویکسین سے انکار کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ لوگ سمجھتے ہیں یہ نامرد بناتی ہے۔ پھر ایسے لوگ بھی ہیں جو سمجھتے ہیں کہ پولیو مہم کے دوران لائی جانے والی ویکسین کو اچھی دیکھ بھال کے ساتھ نہیں رکھا جاتا اور بہتر ہے کہ وہ کسی نجی ہسپتال سے ویکسین لے لیں۔
یہ بھی پڑھیں: افغانستان، فائرنگ سے پولیو ویکسین پلانے والی تین خواتین اہلکار جاں بحق
انہوں نے کہا کہ
پولیو عملے کو تربیت دی جاتی ہے کہ اگر کسی کو ویکسین لگوانے میں ہچکچاہٹ ہو تو اسے قائل کرے۔ ہم نے ویکسین کی حمایت میں ہر مسلک سے تعلق رکھنے والے علمائے کرام کے بیانات بھی ریکارڈ کیے ہیں اور ان کے دیے گئے فتوے پرنٹ صورت میں عملے کے پاس ہوتے ہیں۔
پاکستان میں پولیو پروگرام کے یہاں تک پہنچنے کا سہرا عملی کارکنوں گو جاتا ہے، جنہوں نے کئی چیلنجز کے باوجود لاکھوں بچوں کو ویکسین لگانے کا ہدف پورا کیا۔
گزشتہ سال سندھ کے دیہی علاقوں میں شدید بارشیں ہوئیں، لیکن خواتین پر مشتمل عملہ کئی میل پیدل سفر کر کے کیچڑ اور گھٹنوں گھٹنوں پانی سے ہوتا ہوا دُور دراز دیہات تک پہنچا۔ جہاں لوگوں نے کہا کہ اس وقت انہیں پولیو ویکسین سے زیادہ سر پر چھت اور پیسوں کی ضرورت ہے۔ یہاں مقامی با اثر افراد اور گاؤں کے بزرگوں کی مدد سے ویکسین مہم آگے بڑھی۔
جواب دیں