پاکستان میں بڑھتی ہوئی طلاق کی شرح۔۔۔۔۔آمنہ خرم

مالی طور پر خودمختار خاتون جسے کسی بھی معاملے کے لیے شوہر کی معاونت کی ضرورت پیش نہ آئے وہ کبھی بھی شوہر کو 'ہیڈ آف دی فیملی' یعنی گھر کا سربراہ نہیں سمجھتی۔ اسے وہ فوقیت اور رتبہ نہیں دیتی، جن سے اختلافات جنم لیتے ہیں۔

آج اپنی دوست سے فون پر بات ہورہی تھی۔ گفتگو کے دوران وہ اپنی کسی عزیزہ کا ذکر کرنے لگی جس کی چار بیٹیاں تھیں۔ سب پڑھی لکھی، قابل مگر مناسب رشتے نہیں مل رہے تھے۔ جس کی وجہ سے بڑی دو تو شادی کی عمر سے تقریباً باہر جارہی تھیں۔ اسی طرح میری ایک اور پیاری دوست گورنمنٹ ٹیچر ہے مگر میاں کی دوسری شادی نے اسے ماں باپ کے گھر لاکر بٹھادیا ہے۔ اور شوہر کی بے رخی اور بے اعتنائی اس قدر ہے کہ آپ اسے تقریباً طلاق یافتہ کہہ سکتے ہیں۔

آج کچھ اہم حقائق نظر سے گزرے جو بہت دل گرفتہ ہونے کے ساتھ بہت خطرناک حد تک پریشان کن ہیں۔ اگر آپ تھوڑی تحقیق کریں تو معلوم ہوگا پاکستان میں طلاق کی شرح کا تناسب بہت تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ اور ساتھ ہی ساتھ دیر سے شادی کا رحجان بھی۔ کراچی میں 2019 سے جون2020یعنی صرف ڈیڑھ سال میں 14943طلاق کے کیسز رپورٹ ہوئے۔ پنجاب میں2014میں 16942خلع کے مقدمے دائر کئے گئے جبکہ 2016میں 18901کیسز رپورٹ ہوئے۔ یعنی ہر سال ان اعدادوشمار میں مسلسل اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔

اس کے علاوہ 80 فیصد محبت کی شادیاں تھیں جو ناکام ہوئیں۔ اور پھر اس کے ساتھ ساتھ دیگروجوہات جیسے زبردستی کی شادیاں، کم عمری کی شادیاں، مالی وجوہات، بدگمانیاں، صبر کی کمی اور شادی شدہ ہوتے ہوئے اضافی ازدواجی تعلقات وغیرہ۔

یہ بھی پڑھیں:

آج لڑکیوں کا عالمی دن، تاریخ اور اہمیت

یہاں سب سے پہلے تو یہ ذہن نشین کرلیجیئے کہ اگر کسی رشتہ میں سے اعتبار ختم ہوجائے تو صبر کرنا مشکل ہوجاتا ہے اور پھر رشتہ کھوکھلا ہوجاتا ہے۔ تو اعتبار قائم رہنا بہت ضروری ہے۔ بلکہ بنیادی کنجی ہے۔ محبت کی شادی کے ناکام ہونے میں بھی سب سے اہم محبت کا ختم ہوجاناہے۔ کیونکہ جب اعتبار قائم نہیں رہتا تو محبت بھی آہستہ آہستہ دم توڑدیتی ہے۔ دوسرے شادی سے پہلے ایک دوسرے سے کچھ ایسی توقعات وابستہ کرلی جاتی ہیں جن کا بعض اوقات حقیقت سے کچھ خاص تعلق نہیں ہوتا۔ لہذا جلد محبت کی جگہ بددلی لے لیتی ہے، جو بڑھتے بڑھتے بریک اپ تک لے جاتی ہے۔

پھر آج کل موبائل فون نے ہر چیز تک رسائی اتنی آسان کردی ہے۔ آپ کی کوئی بات ذاتی رہتی نہیں اور بہت سے جھوٹے غم خوار آ پہنچتے ہیں۔ آپ ذرا سے بھی عقیدے کے کمزور ہوں تو بادل نخواستہ ان عارضی سہاروں کی طرف چل نکلتے ہیں، جس سے رشتے مزید کمزور ہوجاتے ہیں۔ یہ بھی مشاہدے میں آیا ہے اکثر میاں اور بیوی دونوں برسر روزگار ہوتے ہیں۔ وقت کی کمی ان میں دوریاں پیدا کرتی چلی جاتی ہے۔ بعض اوقات یہ کمیونیکیشن گیپ ایسی بدگمانیوں کو جنم دیتا ہے کہ جس کا نتیجہ بہت بھیانک نکلتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:

ایک معمہ ہے سمجھنے کا۔۔۔آمنہ خرم

ایک اور اہم نقطہ اس میں یہ ہے کہ مالی طور پر خودمختار خاتون جسے کسی بھی معاملے کے لیے شوہر کی معاونت کی ضرورت پیش نہ آئے وہ کبھی بھی شوہر کو ‘ہیڈ آف دی فیملی’ یعنی گھر کا سربراہ نہیں سمجھتی۔ اسے وہ فوقیت اور رتبہ نہیں دیتی۔ جن سے اختلافات جنم لیتے ہیں۔ ایسی خواتین میں ایک سروے کے مطابق یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ یہ یا تو شادیاں ہی نہیں کرتیں اور اگر کرلیں تو ان کو بادل نخواستہ ہی نبھاتی ہیں۔

اس کے ساتھ ساتھ میڈیا پر پیش کیے جانے والے ڈرامے اور فلمیں ہیں جو نئی نسل کی سوچ پر بہت ہی منفی اثرات مرتب کررہے ہیں۔ ان ڈراموں اور فلموں میں شادی اور طلاق کو ایک کھیل کی طرح پیش کیا جاتا ہے۔ آپ کو یہ جان کر بہت افسوس ہوگا کہ ہماری نئی نسل نے محبت اور وعدوں کو بھی ایک مختلف اور غیرسنجیدہ رویئے سے دیکھنا شروع کردیا ہے۔ محبت کے سابقہ معیار بھی انہیں مذاق لگتے ہیں۔ جس کے نتیجے میں بے حس، خالی الذہن مصنوعی گڈے اور گڑیاں پیدا ہورہے ہیں۔ جن کے جذبات میں نہ گہرائی ہے نہ ٹھہراؤ۔

کیا آپ جانتے ہیں عام خواتین کے ساتھ ساتھ سب سے زیادہ متوسط طبقے کے مرد "رد” ہونے کا شکار ہوتے ہیں۔ مالی لحاظ سے کم تر ہونے کی وجہ سے ان کی اذیت بھری زندگی ان کے اپنے گھر سے ہی شروع ہوجاتی ہے۔ معاونت، تحائف، مالی معاملات میں حصہ داری میں اسی کو زیادہ اہمیت ملتی ہے جو مالی لحاظ سے زیادہ مضبوط ہوتا ہے۔ اور یہ سلسلہ آگے چل کر اس کے سسرال اور پھراس کے اپنے بیوی کے ساتھ تعلقات میں اسے ذہنی دباؤ کا شکار کیے رکھتا ہے۔ بیاہ شادی، محبت کے مسائل، گھر، گاڑی اور بچوں کی تعلیم غرض کہ مسائل اور پریشانیوں کا انبار ہوتا ہے۔ جنہیں پورا نہ کرنے پر اسے بار بار مسترد کیا جاتا ہے۔ اور زیادہ تر مرد اس کی شکایت بھی نہیں کرتے۔

یہ بھی پڑھیں:

بنت آدم و حوا ۔۔۔ آمنہ خرم

اس حقیقت سے تو انکار نہیں کہ خواتین ہماری معیشت کا ایک اہم پہیہ ہیں جن کو صرف گھر کے کاموں پر لگائے رکھنا بالکل بھی عقلمندی نہیں۔ مگر دوسری طرف یہ تلخ حقائق بھی پس پشت نہیں ڈالے جاسکتے۔ خواتین اگر ایک طرف مالی بوجھ کم کرنے کے لیے ان کے شانہ بشانہ کھڑی ہیں تو انہیں نفسیاتی دباؤ کو کم کرنے کے لیے بھی کوشش کرنا ہوگی۔

ایک بات یہ بھی غور طلب ہے کہ بچیوں کے رشتے کرتے ہوئے صرف معاشی طور پر مستحکم لوگوں کو نظر میں نہ رکھیں بلکہ اگر آپ کی بیٹی مستحکم ہے تو کسی کو سہارا دینے میں کوئی حرج نہیں۔ ہاں اس کی ذات کی خوبیاں ضرور دیکھیئے۔ ایمان داری دیکھیئے، سچائی دیکھیئے، شرافت دیکھیئے۔ اگر بیوی میں سب ہوتے ہوئے بھی خاوند رشتے سے بے ایمانی کرے تو یہ بہت تکلیف دہ بات ہے مگر اس وقت بھی ہوش کا دامن نہ چھوڑیں۔ یہ جان لیجیئے کہ آپ چوبیس گھنٹے  اس کی رکھوالی نہیں کرسکتیں تو جسے جانا ہے وہ آپ کے روکنے سے بھی نہیں رکے گا۔ اس کو پورا موقع دیں کہ وہ اپنی غلطی سدھار سکے۔

اور اگر معافی کی گنجائش نکلتی ہے تو معاف کرنا سیکھیں۔ کچھ رشتے ایسے جھٹکوں کے بعد پہلے سے زیادہ مضبوط بھی ہوجاتے ہیں۔ بے جا شک اور پابندیاں بھی بعض اوقات معاملہ بگاڑ دیتی ہیں تو اس معاملے میں بھی ہوشیاری اور دانشمندی بہت ضروری ہے۔

یہ بھی پڑھیں:

” صبر سے تھپڑ تک ” ۔۔۔ آمنہ خرم

جب کسی فرد کا گھر ٹوٹتا ہے تو صرف وہ خود ہی نہیں اس سے جڑے بہت سے لوگ متاثر ہوتے ہیں۔ لہذا بچوں کی تربیت اس انداز سے کریں کہ وہ ان چیزوں کو اتنا معمولی نہ لیں۔ کل کی تکلیف سے ان کو بچانے کے لیے آج سے ان بنیادوں پر کام کرنا شروع کیجیئے۔ ہمارا خاندانی نظام ہماری طاقت ہے۔ اسے مضبوط کرنا ہماری ضرورت بھی ہے اور ذمہ داری بھی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے