ریپ کا نشانہ بننے والی خواتین کے لیے جدوجہد کرتی دلت کارکن

منجولا پردیپ 30 سال سے دلت خواتین کے حقوق کے لیے جدوجہد کر رہی ہیں

"جب میں ان سے پہلی بار ملی تو مجھے اندازہ ہوا کہ بندوق میرے پاس تھی، لیکن میرے پاس چلانے کے لیے گولیاں نہیں تھیں۔”

یہ 28 سالہ دلت خاتون کارکن بھاونا نارکن کے الفاظ ہیں جو انہوں نے اپنی رہنما 52 سالہ منجولا پردیپ کے لیے ادا کیے۔ بھاونا ان درجنوں خواتین میں سے ایک ہیں کہ جنہیں پردیپ نے ریپ کی شکار خواتین کی مدد کی تربیت دی ہے، خاص طور پر دلت برادری سے تعلق رکھنے والی خواتین کو انصاف دلانے کی۔

دلت، جنہیں اچھوت بھی کہا جاتا ہے، ہندوؤں کے ذات پات کے نظام میں سب سے نچلا طبقہ ہیں۔ یہ تاریخی طور پر ایک پسماندہ گروہ سمجھا جاتا ہے جسے اب قانون کے تحت تحفظ تو حاصل ہے لیکن پھر بھی انہیں باقاعدہ طور پر اور بڑے پیمانے پر تعصب اور تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بھارت کی کُل خواتین کا 16 فیصد دلت ہیں، جنہیں بدترین حالات کا سامنا ہے، جس میں جنسی تشدد بھی شامل ہے۔ یہ ریپ عموماً اونچی ذات کے مردوں کی جانب سے کیا جاتا ہے اور یہ گھناؤنی حرکت عموماً دلت برادری کو سزا دینے یا رسوا کرنے کے لیے کی جاتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: بھارت کے بدنام ضلع سے 2 دلت لڑکیوں کی لاشیں برآمد، ایک کی حالت نازک

منجولا پردیپ گزشتہ 30 سال سے دلت خواتین کے حقوق کے لیے جدوجہد کر رہی ہیں اور رواں سال انہوں نے دوسرے ساتھیوں کے ساتھ مل کر نیشنل کونسل فار ویمن لیڈرز بنائی ہے۔ کہتی ہیں

"یہ ایک دیرینہ خواب تھا کہ دلت برادری سے ہی خواتین رہنما سامنے لائی جائیں کووِڈ-19 کی وبا کے دوران جنسی تشدد کے واقعات کو دستاویزی صورت دیتے ہوئے مجھے محسوس ہوا کہ اب وقت آ چکا ہے کہ ان خواتین کو پورے احترام اور وقار کے ساتھ مدد دینے کے لیے ایسی تنظیم بنائی جائے۔”

بھاونا کا تعلق بھارت کی مغربی ریاست گجرات کے ایک چھوٹے سے قصبے سے ہے، جہاں ملک بھر کی طرح غریب دلت خواتین کو تعلیم اور روزگار تک رسائی حاصل نہیں۔ وہ کہتی ہیں

"جنسی تشدد کا سامنا کرنے والی خواتین مشتعل ہیں اور انصاف چاہتی ہیں لیکن ان کے لیے آواز اٹھانا مشکل ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ اپنے خاندان اور برادری میں بھی ایسا نہیں کر سکتیں کیونکہ ہمیں اپنے حقوق اور تحفظ دینے والے قوانین کا ادراک نہیں۔”

انہوں نے جنوری 2020ء میں منجولا پردیپ کو دلت خواتین کے ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے سنا تو بقول ان کے "زندگی ہی بدل گئی۔ محسوس ہوا کہ انصاف حاصل کیا جا سکتا ہے۔”

منجولا نے اپنے خطاب میں انصاف کے حصول میں درپیش رکاوٹون کو عبور کرنے کے لیے کئی خیالات پیش کیے جن میں بنیادی قانونی معلومات کے حصول کے علاوہ خواتین کو تربیت دینا بھی شامل تھا۔ کہتی ہیں

"عدالتی نظام دلت خواتین کے خلاف ایک خاص تعصب رکھتا ہے۔ یہاں الٹا مظلوم کو ہی قصور وار ٹھیرانے کی کوشش کی جاتی ہیں اور ایسے سوالات کیے جاتے ہیں مثلاً آخر اونچی ذات کا مرد اس کے ساتھ ریپ کیوں کرے گا؟ وہ تو اچھوت ہے۔ ضرور اسی نے ورغلایا ہوگا۔”

بھاونا نے دلت خواتین کے حقوق کی ایک مقامی انجمن میں شمولیت اختیار کی ہے اور کسی علاقے میں ریپ کا کوئی واقعہ سامنے آنے کے بعد وہ مظلوم خاتون تک سب سے پہلے پہنچتی ہیں۔

سرکاری اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ 2014ء سے 2019ء کے دوران دلت خواتین کے ریپ کے واقعات میں 50 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ لیکن تحقیقات ظاہر کرتی ہیں کہ دلت خواتین کے ساتھ ریپ کے زیادہ تر واقعات کبھی سامنے نہیں آتے۔ سب سے عام رکاوٹیں ہیں خاندان کی جانب سے سہارا نہ ملنا اور پولیس کی طرف سے اونچی ذات کے مردوں کے خلاف پرچا کاٹنے میں ہچکچاہٹ۔

یہ بھی پڑھیں: بھارت میں ریپ اور قتل کا ایک اور بھیانک واقعہ

منجولا دلت خواتین کی تربیت میں سب سے زیادہ زور ظلم کا نشانہ بننے والی خاتون کی ہمت بڑھانے اور انہیں پرچا کٹوانے کی اہمیت پر دیتی ہیں۔ یہ حوصلہ ان کے اندر بچپن میں پیش آنے والے ایک واقعے کی وجہ سے آیا ہے۔ وہ صرف چار سال کی تھیں جب علاقے کے چار لوگوں نے ان پر جنسی حملہ کیا تھا۔

بتاتی ہیں کہ "مجھے یاد ہے کہ اس دن میں نے پیلے رنگ کی فراک پہنی ہوئی تھی۔ مجھے اب بھی ان لوگوں کے چہرے یاد ہیں۔ اس ریپ نے مجھے بدل کر رکھ دیا تھا، میں ایک بہت شرمیلی اور خوفزدہ بچی بن گئی تھی۔ اجنبیوں سے ڈرتی تھی اور گھر پر کوئی آتا تو چھپ جاتی تھی۔”

اس واقعے کو انہوں نے صیغہ راز میں رکھا اور اپنے والدین کو بھی بتانے سے ڈرتی تھیں۔ ان کی ماں خود اس وقت نو عمر تھیں، جن کی شادی صرف 14 سال کی عمر میں ایک ایسے شخص سے کر دی گئی تھی جو ان سے عمر میں 17 سال بڑا تھا۔ والد بیٹی کی پیدائش پر بھی ناخوش تھے کیونکہ وہ بیٹا چاہتے تھے۔ "وہ میری ماں کو دھتکارتے، ان کا مذاق اڑاتے اور مجھے بد صورت کے لقب سے بلاتے، انہوں نے مجھے یہ احساس دیا کہ میں ایک غیر ضروری شخصیت ہوں۔”

یہ بھی پڑھیں: نچلی ذات کی خواتین پر جنسی تشدد، بھارتی ریاست ہریانہ میں صورت حال بدترین

منجولا کے والد پیدا تو اتر پردیش میں ہوئے تھے لیکن کام کے سلسلے میں وہ گجرات آ گئے تھے۔ یہاں انہوں نے اپنی دلت شناخت چھپائی اور بیوی اور بیٹی کو بھی ناموں کے ساتھ اپنا نام یعنی پردیپ لگانے کا کہا۔

اب منجولا کہتی ہیں کہ ان کی ذات چھپی ہوئی نہیں رہی۔ امتیاز مختلف صورتوں میں ہوتا ہے، بلکہ بڑے شہروں میں بھی اس کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

"جب میں 9 سال کی تھی تو استانی نے صفائی کے لحاظ سے کمرہ جماعت کے تمام طلبہ کو درجہ بندی دی اور سب سے صاف ستھری بچی ہونے کے باوجود مجھے آخری نمبر دیا گیا، اس لیے کیونکہ میں دلت تھی اور ہمیں بھرشٹ (ناپاک) سمجھا جاتا ہے۔”

اسکول کے بعد انہوں نے سماجی کاموں اور قانون میں ڈگری حاصل کرنے کا ارادہ کیا۔

اس دوران دیہی علاقوں کے دوروں نے انہیں دلت حقوق کے لیے آواز اٹھانے کی ہمت دی۔ 1992ء میں وہ نرسرجن میں شامل ہونے والی پہلی خاتون بنیں۔ یہ ایک دلت حقوق انجمن ہے، جو پانچ مردوں پر مشتمل تھی لیکن ایک رکن کو اونچی ذات کے افراد نے گولی مار کر قتل کر دیا۔ ایک دہائی کے بعد وہ انتخابات میں کامیابی حاصل کر کے انجمن کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر بنیں۔ "ایک دلت خاتون کے لیے یہاں تک پہنچنا بہت غیر معمولی ہے۔ میں نے چار مردوں کو شکست دے کر انجمن کی قیادت حاصل کی۔”

اب وہ ریپ کا نشانہ بننے والی خواتین کو سب سے زیادہ اہمیت دیتی ہیں۔ اب تک 50 سے زیادہ دلت خواتین کو انصاف کے حصول میں مدد دے چکی ہیں اور کئی مقدمات میں تو مجرموں کو سزا بھی ہوئی۔

اس جدوجہد نے انہیں یقین دلایا ہے کہ دلت خواتین کو قانون کا علم اور تربیت ملنی چاہیے تاکہ وہ اپنی برادری کی باوقار رہنما بنیں۔ انہوں نے کہا کہ "میں ایک اور منجولا بنانا نہیں چاہتی، میں ان خواتین کو اپنی جداگانہ شناخت دینا چاہتی ہوں، صرف میرے سائے تلے نہیں بلکہ ایک آزاد شخصیت کے طور پر۔”

 

One Ping

  1. Pingback: امریکا، چلتی ریل گاڑی میں ریپ، لوگ خاموش تماشائی بنے رہے - دی بلائنڈ سائڈ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے