ہر سال 11 اکتوبر کو لڑکیوں کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ اقوامِ متحدہ نے صنفی مساوات کے فروغ کے لیے یہ دن منانے کا فیصلہ کیا تھا۔
رواں سال اس دن پر اقوامِ متحدہ نے دنیا میں ڈجیٹل صنفی تقسیم (digital divide) کو ختم کرنے کو موضوع بنایا ہے کیونکہ یہ مختلف شعبوں میں عام پائی جاتی ہیں اور کرونا وائرس کے پھیلاؤ کی وجہ سے معاشرے کو درپیش ایک بڑا چیلنج بن چکی ہے۔
اس عالمی دن کی اہمیت پر اقوامِ متحدہ نے اپنے باضابطہ بیان میں کہا ہے کہ
"جہاں تک معاملہ کنیکٹیوِٹی، آلات اور ان کے استعمال، مہارت اور روزگار کی فراہمی کا ہے، ڈجیٹل صنفی تقسیم ایک حقیقت ہے۔ یہ صنفی بنیادوں پر ہونے والی ایسی بے انصافی ہے جو مختلف جغرافیوں اور نسلوں میں پائی جاتی ہے اور ایک ڈجیٹل انقلاب کی راہ میں چیلنج ہے، سب کے لیے، سب کے ساتھ اور سب کی جانب سے آنا چاہیے۔”
لڑکیوں کے حقوق کو تسلیم کرنے کا بنیادی خاکہ پہلی بار 1995ء میں چین میں منعقدہ عالمی خواتین کانفرنس میں پیش کیا گیا۔ تب تمام ممالک کے اتفاقِ رائے سے اعلانِ بیجنگ ہوا، جسے نہ صرف خواتین بلکہ لڑکیوں کے حقوق کے لیے بھی سب سے اہم خاکہ سمجھا جاتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: خواتین کا عالمی دن: 83 فیصد خواتین ہراسگی سے بچنے کے لیے اپنی نقل و حرکت محدود کرتی ہیں
بعد ازاں 18 دسمبر 2011ء کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 11 اکتوبر کو لڑکیوں کا عالمی دن قرار دیا تاکہ ان کو درپیش مخصوص چیلنجز کو دنیا بھر میں سمجھا جائے، جو خواتین کے مسائل سے تعلق تو رکھتے ہیں لیکن ان سے بالکل مختلف بھی ہو سکتے ہیں۔
نو عمر لڑکیاں زندگی کے بہت اہم مرحلے سے گزر رہی ہوتی ہیں، جس میں انہیں ایک محفوظ تعلیم یافتہ اور صحت مند طرزِ زندگی کو یقینی بنانے والے ذرائع سے لیس کرنا ضروری ہے۔ آج کی لڑکی کو خود مخۃار بنانا دراصل کل کی ملازمت پیشہ، ماں، کاروباری منتظم، رہنما، گھر کی سربراہ اور سیاسی رہنما کی حیثیت سے اختیار دینے کے مترادف ہے۔
اقوام متحدہ کے مطابق آج نو عمر لڑکیوں کو اس حقیقت کے ادراک میں مدد دینا کل ایک زیادہ مساوی اور ترقی یافتہ مستقبل کی نوید ہے۔ خاص طور پر موسمیاتی تبدیلی، سیاسی کشیدگی، معاشی نمو، بیماریوں سے تحفظ اور عالمی پائداری جیسے معاملات میں جہاں وہ انسانیت کی یکساں نصف شراکت دار ہیں۔
سال 2030ء کے لیے پائدار ترقی کا ایجنڈا اور اس کے 17 اہداف کو 2015ء میں عالمی رہنماؤں نے قبول کیا تھا، جو ترقی کے لیے ایک نقشہ راہ فراہم کرتا ہے اور سب کو ساتھ لے کر چلتا ہے۔ ان تمام 17 اہداف میں صنفی مساوات اور خواتین کو خود مختار بنانا اہم حیثیت رکھتا ہے۔
Pingback: پاکستان میں بڑھتی ہوئی طلاق کی شرح۔۔۔۔۔آمنہ خرم - دی بلائنڈ سائڈ